بس کافی دیر سے اچھرا بازار سے پہلے والے ٹریفک سگنل پر رکی ہوئی تھی، شاید ٹریفک جیم تھا۔ یہ تو اب معمول کی بات ہے آپ گھر سے نکلیں تو منزل تک پہنچتے پہنچتے دو تین بار تو ایسا ہونا ہی ہے۔ پھنسی ہوئی گاڑیوں کی لمبی قطاریں جو ہوا میں دھوئںہ کی مقدار میں بے پناہ اضافے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی ہیں اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہیں تھیں۔
بیزاری میں ادھر ادھر دیکھنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا۔ اکتاہٹ اور بیزاری میں بھی نظر بار بار جا کر سبزی مائل گرے رنگ کے پتوں میں سے جھانکتے گول گول ،چھوٹے چھوٹے پیلے پھولوں والے ایک درخت میں اٹک جاتی تھی جو سڑک کے اس پار شیل کے پٹرول پمپ سے آگے کونے پر نجانے کب سے کھڑا اپنے ہم وطنوں کی بے ترتیبی اور بےگانگی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔
اس فٹ30-35اونچے اور پھولوں سے لدے درخت میں میری دلچسپی کو ساتھ بیٹھے شخص نے بھانپ لیا۔میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے مجھ سے پوچھا، “اے کیڑا بوٹا اے، اج کل ون سونے بوٹے آ گئے نے”۔ وہ معصوم درخت کوئی اور نہیں ہمارا اپنا کیکر تھا۔
لیکن شائد میرے اس ہم سفر کی بات درست تھی،”اج کل ون سونے بوٹے آ گئے نے”۔ اور ان ون سونے بدیسی پودوں اور درختوں کے عشق میں ہم نےاپنے ہم وطن پودوں اور درختوں سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔ معیار یہ قرار پایا ہے کہ کوئی بھی پودا جو ہمارا نہیں ہے ، اچھا ہے۔ ہمارے موڈرن ہونے کی دلیل ہے۔ ہمارے اس رویے نے جہاں ہمارے ماحول کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے وہیں ہمیں اپنے نباتاتی ورثے سے بیگانہ کر دیا ہے۔ ہماری معلومات ان کے بارے میں بہت ہی محدود اور مختصر ہوتی جارہی ہیں۔ اب ہم سوائے چند کے اپنے دیسی پودوں کو پہچان بھی نہیں سکتے۔
اگر ہمیں یہ یاد ہے کہ کیکر میں بہت سے کانٹے ہوتے ہیں تو ہم اس کے پھولوں کو نہیں پہچانتے اور پھر ان کی مسحور کن خوشبو ، اس کا تو ہمیں اندازہ ہی نہیں، اور ہو بھی کیسے ہمارا ایسا کوئی تجربہ ہی نہیں، ہمارے اطراف تو صرف فائیکس بنجامانہ، السٹونیا اور کئی طرح کے بدیسی پام ہی ہوتے ہیں جن کی نہ تو کوئی خوشبو ہوتی ہے نہ کوئی پھول، نہ ان پر ہمارے پنچھی بسیرا کرتے ہیں نہ ان پر ان کے کھانے کو کچھ میسر ہوتا ہے۔
۔ہمیں اگر اپنے شہروں کو تیزی سے سرسبز کرنا ہو تو بھی ہم بجائےاس کے کہ حیران کن حد تک تیزی سے بڑھنے والے اپنےلازوال درختوں اور پودوں سے امداد کے طلبگار ہوں، ہم تو دنیا بھر کے ایسے پودوں کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں جو صرف اور صرف ہمارے ماحول کی موت ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ غیر مقامی درختوں اور پودوں کی کاشت سے ہونے والاہولناک نقصان بڑھتا ہی جاتا ہے۔
اسلام آباد کو سرسبز کرنے کے لئے لگائے جانے والے بدیسی درخت “کاغذی توت” سے ہونے والے اور مسلسل بڑھتے ہی جانے والے نقصان سے واضح اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ہم نے کراچی میں بغیر کسی تحقیق کے ایک اور اجنبی پوداجوہمارے ماحول سےنا صرف یہ کہ مطابقت نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ تو پودوں کی درجہ بندی کے حوالے سے درخت ہی نہیں کہلاسکتا، پورے شہر میں لگانے کی خوفناک حماقت کی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب کی عرصہ دراز سے تلاش ہے۔ بہت سے جوابات ملتے بھی ہیں مگر ان کا اپنا سیاق وسباق ہوتا ہے کوئی ایک نظر سے دیکھتا ہے تو کوئی دوسری سے،کوئی ماحول کے حوالے سے دیکھتا ہے تو کوئی کاروبار کے، اور ہاں پودے لگانے کی اپنی بھی تو ایک معیشت ہوتی ہے اور وہ پودوں کے انتخاب پربری طرح اثر انداز بھی ہوتی ہے یا یوں کہا جائے کہ وہی حرف آخر ہوتی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ آئیے ہم اس اہم سوال ، اسکے ممکنہ جوابات اور ان سے پیدا ہونے والے سوالات کا جائزہ لیں۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ مرغی پہلے تھی یاانڈا،ہم دیکھتے ہیں کہ کیوں ایک عام آدمی جو چاہے شہر کا ہو یا دیہات کا، معدودے چند اشجار کے، دیسی پودوں اور درختوں کی پہچان بھول چکا ہے؟
لینڈ سکیپ کے ماہر ہوں یا باغوں کی تعمیر کے یا پھر شاہرات کے اطراف شجرکاری کرنے والےسب ہی دیسی پودوں کو نظرانداز کر کے صرف ایسے بدیسی پودوں کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں جو ہمارے ماحول سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے؟
ان ہمہ جہت سوالات کے جواب میں ماحول کے لئے اجنبی اور بدیسی پودوں کی حمایت ان کی خوبصورتی اور کم از کم دیکھ بھال میں پنپنے کی خوبیوں کی بنا پر کرنا بتایا جاتا ہے جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور ان “ماہرین” کی لاعلمی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جو پودوں کے علم سے نابلد ہوتے ہیں عموما” اس کام پر معمور کئے جاتے ہیں۔
ہمارے سول سروس کے بابو چاہے فارسی، انگلش، کیمسٹری یا پھر میڈیسن اور انجیئرنگ پڑھ کر آئے ہوں کسی بھی ادارے میں کام کر سکتے ہیں بلکہ سربراہ بھی ہو سکتے ہیں جیسے وہ ہمارے سسٹم کے مولا مشکل کشا ہوں۔ یہی حال سیاسی رہنماوں کا بھی ہے، جوکام کیا جانا ہے اس میں مہارت ہونا کہیں بھی شرط نہیں ہے۔کوئی بھی غیر مقامی پودا لگانے سے پہلے اس کے متعلق کسی ماہر سے رجوع نہیں کیا جاتا اور نتائج سے بے پروا ہو کر نظر صرف اور صرف منافع پر رکھی جاتی ہے۔
پاکستان شاید خطے کا واحد ملک ہے جس کی کوئی “اربن فاریسٹ پالیسی” نہیں ہے۔ اور جب رہنما اصول ہی موجود نہ ہوں تو الزام کس کو دیا جائے اور کس قانون کے تحت احتساب کیا جائے۔
دوسری وجہ جس پر سول سروس اور سیاسی رہنمائی یک جان نظر آتی ہے وہ غیر مقامی پودوں کی شجرکاری سے حاصل ہونے والا غیر معمولی منافع ہے۔ آپ لاکھ کوشش کریں کیکر ، املتاس اور شیشم جیسے مقامی اشجار کے لئے ہزاروں تو کیا سیکڑوں روپے میں بھی قیمت وصول نہیں کی جاسکتی جبکہ مشکل ناموں والے امپورٹڈ پودوں کے لئے دسیوں ہزار کے بل پاس ہوجاتے ہیں۔
کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنے مقامی اشجار کی بقا اور سلامتی کے لئے کام نہیں کررہا، اس میں محکمہ جنگلات اور شہروں کی ترقیاتی اتھارٹیز کے مجاز شعبے سب ہی شامل ہیں۔
پہلی جماعت سے لے کر فارغ اتحصیل ہونے تک کسی بھی سطح پر نجانے کیا کچھ پڑھایا جاتا ہے مگر اپنے مقامی پودوں اور درختوں سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی جاتیں اور پھر خصوصا” شہروں میں بدیسی پودوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہمیں اپنے اس بے مثال ورثے سے یکسربے گانہ کر دیا ہے۔ایسے میں کسی کا کیکر کو نہ پہچان پانا اچنبہ کیوں ہو؟ یہ سوالات بار بار اٹھانے چاہیں تاوقت کہ ان کے تسلی بخش جوابات مل نہ جائیں۔
درختوں، ان کی کاشت اور ماحول سے متعلق اور بہت سے سوالات ہیں جو ان صفحات پر اٹھائے جائیں گے۔ جہاں ہم سوال اٹھائیں گے وہیں ہم ایک عام آدمی کی اپنے اشجار سے متعلق معلومات میں اضافے کی بھی کوشش کرئیں گے۔ اپنے پودوں اور درختوں کی تصاویر، طبی، عمومی اور نباتاتی تفصیلات کے بیان سے یہ سعی کی جائے گی کہ پڑھنے والا ان کو ظاہری طور پر پہچان پائے اور ان کے باطنی خواص کا معترف بھی ہوسکے۔
پڑھنا جاری رکھیں