یہ ۱۹۳۴ کا واقعہ ہے ، ڈاکٹر ہنری فیلڈ کی قیادت میں نباتاتی ماہرین کے ایک دستے کو ایران اور عراق کے سفر پر راوانہ کیا گیا۔ان کی اس مہم کا مقصد مشرق وسطہ کے ممالک میں بطور ادویہ زیراستعمال جڑی بوٹیوں کا تفصیلی مطالعہ کرنا اور ان کے نموناجات حاصل کرنا تھا۔ اس مہم کے اختتام پر جناب ہنری فیلڈ نے دس ہزارجڑی بوٹیوں کے نمونے جنہیں سائنسی اسطلاح میں ‘ہربیریم اسپے سی من’کہتے ہیں اپنے ادارے کو مہیا کئے ۔ ( ‘ہربیریم اسپے سی من ’ پودے کے تمام حصوں کو اس طرح محفوظ کرنے کو کہتے ہیں جن کی مدد سے ان کا مطالعہ کیا جاسکےاورطلبہ کو تعلیم دی جاسکے۔ ہر ملک کا اپنا ‘‘نیشنل ہربیریم ’’ہوتا ہےجس میں اس کے اپنے مقامی پودوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، عموماً یونیورسٹیاں بھی اپنے ہربیریم بناتی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان کا اپنا کوئی ہربیریم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی ایسی کوئی سہولت اپنے طلبہ کو مہیا کر رہی ہے۔) ان کی اس یاترا میں بہت سے دلچسپ واقعات پیش آئےاور ان کا سفر حقیقی معنی میں وسیلہ ظفر ثابت ہوا۔ اپنے دورہ اصفہان میں ان کی ملاقات ۹۵ سالہ حکیم مرزا محمد علی خان سے ہوئی جو کئی پشتوں سے شعبہ طب سے منسلک تھے اور صرف بیس سال کی عمر سے باقاعدہ خدمات انجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر ہنری کے مطابق وہ کمال مہربانی سے نہ صرف اپنے نسخاجات انہیں لکھوانے پر آمادہ ہوگئے بلکہ اپنے خاندانی نسخاجات بھی جو دوضخیم جلدوں پر مشتمل تھے ان کے مطالعے اور نقول کی تیاری کے لئے ان کے حوالے کر دیئے جو فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری ، شگاگو یونیورسٹی نے۱۹۳۷ میں کتابی شکل میں شائع کئے۔یہ ایک دلچسپ کتاب ہےاور اپنے وقت کی حکمت اور ادویہ کی مکمل دستاویزبھی، مگر اس کے پیش لفظ کی آخری سطروں نے چونکا دیا ۔ ڈاکٹر ہنری فیلڈ کے یہ الفاظ آپ کے مطالعے کے لئے من و عن بغیر کسی تبصرے کے نقل کئے جا رہے ہیں یہ اب آپ کا کام ہے کہ اس پر اپنی آرا کا اظہار کریں:
‘‘ایران میں رضا شاہ پہلوی اور عراق میں غازی شاہ کی قیادت میں جس تیزی سے مغربیت کو اپنایا جا رہا ہے ،یہ نہایت ضروری ہو گیا ہے کہ جلد از جلد ان ممالک کےمعدوم ہوتے طبی ورثے کو اس کی اصلی حالت میں محفوظ کر لیا جائے’’
اس نادر کتاب کا سراغ اتفاقاً ہاتھ لگا، دراصل میں اپنے ایک بہت ہی پیارے ، پیار اور آسانیاں تقسیم کرنے والے ہم وطن کے نام کے معنی اور وجہ تسمیہ کی تلاش میں تھا اور اس کے ایک اور ہم نام سے جاملا جو ازبکستان کے شہر بخارا کے نواح میں پایا جاتا ہے اور اپنے ادویاتی خواص کی بنا پر اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے اس ہم وطن کے نام پر ایک شہر ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں ہے ، اس کے علاوہ اس مجسم حسن کے نام پر بہت سے مسلمان ملکوں میں خواتین کا نام رکھا جانا بھی مقبول ہے۔ چلئے اب اور کیا چھپانا! یہ وہی دراز قد حسینہ ہے جو ہر موسم میں پوشاک بدل بدل کر اپنا اور اپنے اردگرد کا نظارہ دلفریب کئے رکھتی ہے۔ اب تو یقیناً آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ ہم آج سنبل سےاپنی دیرینہ محبت کا برملا اقرار کر کے ہی رہیں گے۔
پوری گرمی یہ پتوں سے ڈھکا رہتا ہےاور اپنے پورے قد کاٹھ سے اپنے اطراف ٹھنڈی چھاؤں کئے رکھتا ہے، خزاں کے آتے ہی یہ پتے جھاڑ کر سردی کی ناتواں دھوپ کو راستہ دیتا ہےاور اپنے ہمسایوں کو موسم سے مقابلے کی طاقت۔ بہار کا تو اعلان ہی اس کی چاروں اطراف پھیلی ہوئی شاخوں پر موٹی موٹی انڈے کی شکل کی کلیوں کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے جو سیاہی مائل بھورے رنگ کی ہوتی ہیں۔ مظبوط شاخوں پرکلیوں کے گچھے ماہ فروری میں سرخ، نارنجی یا پیلے پھولوں میں بدل جاتے ہیں۔ مختلف اطراف میں رخ کئے یہ پھول بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں ۔ پھولوں سے لدا دیدہ زیب درخت مرکز نگاہ اور اطراف کی تمام چیزوں پر حاوی ہوتا ہے۔دن کی روشنی میں یہ منظر رات کی تاریکی میں ہونے والی آتشبازی سے مشابہ ہوتا ہے۔
نباتات کی کتابوں میں اس کانام ‘‘بوم بیکس سیبا ’’درج ہے اور اس کا شمار پھولدار درختوں والے خاندان‘‘ مالوےیسی’’ میں کیا جاتا ہے۔ہندی میں سیمل اور انگلش میں سلک کاٹن ٹری کہا جاتا ہے، چین میں یہ‘‘ مومی این ’’کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اس کی کاشت کا علاقہ بہت وسیع و عریض ہے، جنوب میں تامل ناڈو سے لے کر ہمالیہ کے دامن تک اونچے نیچے ، خشک وتر سب میں ہی سر اٹھا کر جیتا ہے۔
پانچ سے سات انچ کے پانچ سے نو پتے ایک مرکزی شاخ سے جڑے ہو کر انسانی ہاتھ کی سی شبیہ بناتے ہیں ۔ تنے سے پھوٹنے والی شاخیں متوازی اور سیدھی ہوتی ہیں اور تنے کے گردایک چکر کی صورت میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ باغبان نیچے سے ان کی چھٹائی کرتے رہتے ہیں اس طرح تنا صاف ہوتا جاتا ہےاور شاخوں کی چھتری اوپر کی جانب بڑھتی جاتی ہے یوں ایک سیدھااور سایہ دار پیڑ وجود میں آتا ہے۔
چھ سے آٹھ انچ کا پانچ پنکھڑیوں والا خوشنماپھول بہت چمکدار اور ریشمی سا ہوتا ہے۔دھوپ پڑنے پر اس کی چمک بہت دور تک جاتی ہے اور سب کو متوجہ کر لیتی ہے۔پھول اپنی وضح قطع میں بیڈ منٹن کی چڑیا سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس میں پانی اور مٹھاس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو بہت سے پرندوں کے لئے سال بھر کی توانائی کا سامان لئے ہوتی ہے ۔ شہد کی مکھیاں اور بہت سے پرندے پھولوں کے کھلتے ہی اس کا رخ کرتے ہیں اور اس دعوت عام میں اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کرتے ہیں۔ ایسے شاید کم ہی درخت ہونگے جن میں پرندوں کے لئے سنبل جتنی کشش ہو ا۔ باغوں میں اس کی موجودگی پرندوں کی آمد کا سبب بنتی ہے۔سنبل کے بلند قد و قامت کے باعث بہار کی آمد کی اطلاع دور دور تک پھیل جاتی ہے۔شہروں کی سنگین سکائی لائن رنگین اور گداز کر نے کا یہ سہل اور آسان طریقہ ہے۔
درخت کی شاخ پر سنبل کے پھول کی عمر تقریباًانتیس دن ہوتی ہے یہ صرف شاخ پر کھلا، رنگ بکھیرتا ہی بھلا نہیں لگتا اس کا اپنی شاخ سے ٹوٹ کر گرنے کا منظر بھی انوکھا اور دلفریب ہوتا ہے۔اپنی مخصوص ساخت اور وزن کے باعث بلندی سے نیچے پنکھے کی طرح گھومتے ہوئے آتا ہے ۔سنبل کے پھول مارچ اپریل میں گرنا شروع ہوتے ہیں اور جو رنگ کچھ دن پہلے آسمان پر چھائےہوئے تھے اب زمین کو رنگ دیتے ہیں اور سنبل کے اردگرد کی زمین کا حسن ہی نہیں زرخیزی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ماہ مئی میں ان رنگوں کی جگہ ریشم کی سی ملائم روئی کی باریک سی تہہ لے لیتی ہے ایسا اس کے سیڈ پوڈ کے درختوں پر ہی کھل جانے سے ہوتا ہے۔سنبل کا ایک ملی میٹر موٹا اور دو سے تین ملی میٹر قطر کا گول بیج بہت نازک اور مہین ہوتا ہے اور اسے دیکھ کر یہ اندازہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دیو ہیکل درخت اس مہین بیج سے برآمد ہوا ہے۔ چار سے چھ انچ کے سخت بیضوی سیڈ پوڈکے اندر ریشمی روئی میں لپٹے بیج بھرے ہوتے ہے۔یہ شایدبیجوں کی نازکی کا ہی تقاضا تھا کےقدرت نے اسے نہایت نرمی سےریشم میں لپیٹ کر ایک مظبوط اور چوبی ڈبے میں رکھا ۔درخت پر ہی کھل جانے پر اس کے بیج ہوا کے دوش پر دور دراز ،انجان زمینوں کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں لیکن جہاں اس کی قیمتی ریشمی روئی کو ضائع کرنا مقصود نہ ہو وہاں انہیں کھلنے سے پہلے ہی اتار لیا جاتا ہےاور پھر گرم پانی میں ڈال کر کھولا جاتا ہے اور اس طرح بیج اور ریشم علیحدہ کر کے کام میں لایا جاتا ہے۔سنبل کی روئی کو کاتا نہیں جاسکتا اس لئے یہ ریشمی ہونے کے باوجود ریشم کی ہم پلہ نہیں ہے اور صرف گدوں اور تکیوں کی بھرائی ہی کے کام آتی ہے۔سنبل کا بیج کھانے کے قابل نہیں ہوتا اور زہریلہ ہوتا ہے۔
پینتیس سے چالیس میٹر بلند سنبل اپنی مظبوط شاخوں کی بیس سے پچیس میٹرکی چاروں اطراف پھیلی ہوئی چھتری اٹھائے ، سایہ پھیلائے بہت باوقار اور بارعب انداز میں سو برس سے بھی زیادہ عرصے تک تیز و تند ہواؤں کا غرور توڑکر باغوں کی حفاظت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ابتداء میں اس کےتنے پر موٹے موٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں یہ اس کا جانوروں کی چرائی سے محفوظ رہنے کا قدرتی نظام ہے۔سلیٹی رنگ کی چھال کی سطح کھردری اور ہاتھی کی جلد سے مشابہ ہوتی ہے۔اس کے تنے کی موٹائی تین سے پانچ میٹر تک ہوسکتی ہے۔ یہ ایک تیز رفتار درخت ہے اور اور پانچ سال میں ہی دس سے بارہ میٹر تک جا پہنچتا ہے ویسے اس پر پھولوں کی آمد کا سلسلہ تو تین سے چار میٹر کے پودے سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔قد اور حجم بڑھنے پر اتنے بڑے وجود کو سہارا دینے کے لئے بھی قدرت نے اسے ایک خاص نظام سے نوازا ہے ۔ سنبل کے نچلے حصے سے خاص جڑیں جنہیں بٹرس روٹس بھی کہا جاتا ہے نمودار ہوتی ہیں جو اس کے تنے کو کچھ فاصلے سے اس طرح سہارا دیتی ہیں جیسے واقعی کوئی دیوار تعمیر کی گئی ہو، بعض پرانے درختوں میں یہ بٹرس روٹس تنے پر آٹھ سے دس میٹر اونچائی سے زمین پر کوئی تین سے چار میٹر تک جا پہنچتی ہیں ۔
سنبل ایگرو فارسٹری کے لئے بہترین سمجھے جانے والے معدودے چند اشجار میں شامل ہے اور ہو بھی کیسے نہ، یہ جتنا اوپر بڑھتا ہے اتنا ہی نیچے بھی۔ ماہرین کے مطابق سنبل کے حجم کا ایک چوتھائی سے بھی زیادہ زیرزمین ہوتا ہے اس طرح بائیوماس کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے کاشتکار کی زمین کو مہیا کرتا ہے۔
بدلتے موسموں کے ساتھ منظر بدل دینے کی صلاحیت اسے شہروں میں کی جانے والی شجر کاری کے لئے موزوں ترین امیدوار بناتی ہے۔ اپنے حسن و جمال کے ساتھ ساتھ سنبل فضاء کو ہر قسم کی آلودگی چاہے وہ گردوغبار کی ہو یا موٹر گاڑیوں کے دھوئیں کی سب ہی کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور گہری گھنی چھاؤں سے نہ صرف درجہ حرارت میں کمی کا باعث ہوتا ہے بلکہ سڑکوں کے اطراف ہونے کی صورت میں ان کی عمر بھی بڑھاتاہے۔اس کی تازہ کٹی ہوئی لکڑی کی رنگت کچھ سفید سی ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ سلیٹی ہوجاتی ہے۔ صرف پانی کے اندر پائیدار پائی گئی ہے اس لئے چھوٹی کشتیوں اور کئووں کی دیواروں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اس کا زیادہ استعمال پلائی وڈ کی صنعت میں ہی ہوتا ہے۔
ہماری گنجان شہری آبادیوں میں کنکریٹ، لوہے، پتھر اور شیشے سے بنی بلندو بالا عمارات ، موٹر گاڑیوں کےکثیف دھوئیں اور بے پناہ شورہمارے ماحولیاتی توازن کو درھم برھم کرنے کا سبب ہیں ۔ اس طرز زندگی کی جملہ خرابیوں سے آگہی کے باوجود ہم اپنی معاشی اور سماجی مجبوریوں کے باعث اس سے یکسر انکار نہیں کرسکتے۔ سنبل امید کی ایک کرن ہے۔ اپنی عمودی بڑھوتری اور قد کاٹھ کی وجہ سے ان جملہ ماحولیاتی مسائل کے حل کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اس کی طویل عمری اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کرتی ہے۔ سنبل کے ایک صدی پرانے اور ایک سو فٹ سے بھی بلند دیو ہیکل درخت اب بھی لاہور کے لارنس گارڈن میں موجود ہیں، لاہور کی پرانی آبادیاں ماڈل ٹاؤن، میو گارڈنز اور جی او آر ون وغیرہ میں بھی کچھ ایسے بزرگ فیض بانٹتے دیکھائی دیتے ہیں۔ انہیں کے کچھ ہم عصرجو کچھ عرصہ پہلے تک جیل روڈ پر مزنگ چوک سے شیرپاؤ پل تک سایہ کئے رہتے تھے ‘‘ترقی’’ کی نظر ہوگئے۔بظاہر دیوہیکل نظر آنے والا اور آندھی طوفانوں سے نبردآزما سنبل بھی لالچ کے عفریت اور جہالت کے طوفان کے آگے بے بس نظر آیا۔ سنبل کے یہ مقتول درخت لاہور شہر میں پروان چڑھنے والی کتنی ہی نسلوں کے ساتھی اور شہر کی زندگی کے کتنے ہی نشیب و فراز کے عینی شاہد بھی تھے۔ان سوختہ جانوں کی جگہ لگائے جانے والے‘‘ نئے درخت ’’پندرہ سال گزرنے کے باوجود اب تک اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلا سکے۔
نہیں معلوم پہلے سے موجود درختوں کی مکمل تباہی اور دور دور تک پھیلے کنکریٹ یا اسفالٹ کو ہی ترقی کیوں مانا جاتا ہے۔موسم گرما کی سخت دھوپ میں پگھلی ہوئی سڑکیں درختوں کے بغیر اور بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں۔