بہار کے اختتام اور برسات شروع ہونے سے پہلے کا موسم جب گرمی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہوتی ہے، پودوں اور پھولوں کے لئے بہت برا ہوتا ہے۔ اس کا احساس اس لئے بھی شدید ہوتا ہے کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے بہار کے ہنگامہ رنگ و بو میں سبھی چرند پرند ایک دوسرے سے سبقت لینے میں لگے تھے کوئی امپنی خوشبو کو آزماتا تھا تو کوئی اپنے رنگ کو،کسی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا تو کسی کی سادگی میں ہی وہ کچھ تھا کہ نظر ہٹائے نہیں ہٹتی تھی۔لیکن اب جب گرمی نے زور مارا تو سب کو اپنی پڑ گئی اور سب ہی لمبے دنوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے نظر آئے۔
اس مارا ماری اور نفسا نفسی میں بھی کوئی ہے جو امید کے پھول کھلاتا ہے اور ایسا رنگ جماتا ہے کہ سب اسی کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ ایسا انوکھا رنگ کہ دیکھنے والے کا دل خوشی سے بھر جائے، جی ہاں اسی ساحر کا نام ہے املتاس۔
املتاس نیپالی زبان کا لفظ ہے جو اب ھندی، اردو اور پنجابی میں بھی زیر استعمال ہے۔املتاس برصغیر کے طول و عرض میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں جو اس کے سراپے اور خواص کی بنا پر دئے گئے ہیں، جیسے کہ سنسکرت کے نام ارگ وادھا یعنی بیماریوں کو مارنے والااور راجا تارو یعنی شاہ اشجار۔ اس کے عشق میں مبتلا ایک اور ملک تھائی لینڈ میں اسے راچپ روئک اور لاٹین والا درخت کہا جاتا ہے۔ بنگالی میں اس کا ایک نام بندر لاٹھی بھی ہے جو اس کے پھل یا سیڈ پوڈ کی جانب اشارا ہے جو کوئی دو فٹ تک لمبی ہوتی ہے۔تھائی لینڈ میں املتاس اس قدر مقبول ہے کہ اسے قومی درخت کا درجہ دیا گیا ہے، ہندوستان کی ریاست کیرالہ نےبھی املتاس کے پھول کو ریاست کا نشان بنایا ہے۔یہ شاید قدرت کے اس حسین شاہکار سے ان کی عقیدت کا اظہار ہے۔
عام حالات میں اس کا قد ۳۵ سے ۴۰ فٹ تک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی بہت موافق حالات کے زیراثر یہ ۶۰ فٹ تک بھی اونچا جا نکلتا ہے۔اس کی بڑھوتری بہت ہی تیز رفتار ہوتی ہے، ایک سال میں کوئی ڈیڑھ سے دو میٹر، یعنی ۴ سے ۶ فٹ سالانہ، صرف تین سال کی قلیل مددت میں ہی ایک ۱۵ سے ۱۸ فٹ کا بھرپور درخت آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ جانے کا محاورہ لڑکیوں کے علاوہ شاید املتاس کے لئے ہی ہے۔ یہ بہت ہی قلیل مددت کے لئے بے لباس ہوتا ہے مگر پھر بھی اسے سدا بہار نہیں کہا جاسکتا۔
اس کے پتے خزاں میں گرتے نہیں اور بہار میں نکلتےنہیں، بہار کے آخر میں گرتے اور گرمی کی شروعات میں نکلتے ہیں ۔پتے جھاڑنے کے کچھ ہی دنوں بعد املتاس کا ٹنڈ منڈ درخت باریک باریک ،چھوٹی چھوٹی ڈالیوں سے بھر جاتا ہے اور پھر ان پر موتیوں کی سی ننھی ننھی کلیاں نمودار ہوتی ہیں اور بس پھر رنگوں کی کاریگری کی ایسی نمائش شروع ہوتی ہے کہ اپریل کے آخر سے اگست آجاتا ہے پر املتاس ہے کہ تھکنےکا نام ہی نہیں لیتا، کبھی کبھی تو یہ نمائش ماہ ستمبر تک توسیع لے لیتی ہے۔بنا پتوں کے املتاس پر پیلے پھولوں کا انبار ایک الگ ہی نظارہ ہے جو اور کسی کے بس کی بات نہیں۔انگورکے گچھوں سے مشابہ پھولوں کی ان ڈالیوں پر پھول اس ترتیب سے ہوتے ہیں کہ پہلے پورے کھلے ہوئے پھول پھر ادکھلے اور آخر میں کلیاں اس طرح پھول کی مختصر حیات کے سب مناظر ایک ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں جو خوداپنے آپ میں ایک طرب انگیز بصری تجربہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں بھی املتاس کا نظارہ سب کچھ بھلا کر اپنی طرف کھینچتا ہے۔
ابتداٗ میں نئے پتوں کا رنگ گہرا عنابی ہوتا ہے جونظروں کو بہت ہی بھلا لگتا ہےپھر بہت ہی تازہ سبز رنگ میں بدل جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا جاتا ہے۔اس کی چھاوں گہری اور گھنی ہوتی ہے۔املتاس پر جب نئے پتے ہوں تو اس کے نیچےچھن کر آنے والی دھوپ میں عجیب سی ٹھنڈک ہوتی ہے جو املتاس کے رنگ سے منور بھی ہوتی ہے۔غرض اس کی ہر ادا انمول ہے اور پیا من کو بھاتی ہے۔
املتاس کی کاشت اور پرورش دونوں ہی آسان ہیں اتنی آسان کہ شاید اس کے لئے درخت لگانے کا ارادہ ہونا ہی کافی ہے۔ ہر طرح کی زمین چاہے تیزابی ہو یا زیادہ نمکیات والی، سخت ہو یا بھر بھری اور ریتلی سب ہی میں قدم جما کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ ابتدائی دنوں کے علاوہ بہت پیاسا بھی نہیں رہتا ۔ سمندر کی نمکین ہواوں کا مقابلہ بہت کم درختوں کا وصف ہے،یہاں بھی یہ کھلاڑی میدان مارتا ہے۔ اور ساحلی شہروں کی شجرکاری کے لئے بھی موزوں درخت ہے۔نرسری میں تیار کئے گئےکم از کم چھ ماہ کے پودے ہی لگانےچاہییں۔
نباتات کی دنیا کے تیسرے بڑے خاندان Fabaceae جسے Legume family بھی کہتے ہیں کا فرد ہونے کے ناطے ایک منفرد خوبی کا حامل ہوتا ہے جو ہوا میں موجود نائٹروجن گیس N3 کو پودوں کے لئے قابل استعمال نائٹروجن کھاد Nh3 یا NO3 میں تبدیل کرنا ہے جو اس کی جڑوں کا کام ہے اس طرح جہاں کاشت کیا جائے وہاں کی زمین کے بھی بھاگ جاگ جاتے ہیں۔ترقی کی خواہش مند قومیں اپنے مسائل کے دیرپا اور مستقل حل قدرت کے بے بہا خزانوں میں تلاش کرتی ہیں بس اس کے لئے غور وفکرکرنے کے ساتھ ساتھ اپنا رشتہ قدرت سے جوڑنا پڑتا ہے۔موٹر گاڑیوں کی روز بروز بڑھتی تعداد اور ہمارے ان پر بڑھتے ہوئے انحصار نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی انہی میں سے ایک ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تو سب پودے ہی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں پر موٹر گاڑیوں کے دھوئیں میں موجود بھاری دھاتیں جیسے کہ لیڈ آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ سب کے بس کی بات نہیں۔ریاست ہائے متحدہ کی ایک ریاست ایریزونا کی یونیورسٹی میں کی گئی ایک ریسرچ نے یہ ظاہر کیا کہ املتاس ان سب خطرناک مرکبات سے فضا کو صاف کرتا ہے اور اس کی بڑھوتری کی تیز رفتار شہروں کی سبز چھتری ( Tree cover)بڑھانے اور فضائی آلودگی کو کم کرنے کا بہترین زریعہ ہے۔پتا نہیں ہم کب جاگیں گے؟
املتاس کی لکڑی کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ اس کے ریشے باریک اور باہم پیوست ہوتے ہیں لہذا اسے تعمیراتی اور فرنیچر سازی کے لئے موزوں خیال کیا جاتا ہے۔ اس پر پالش بھی عمدہ کی جاسکتی ہے۔ لکڑی کی مظبوطی کا ایک پیمانہ اس کے ایک کیوبک میٹر کا وزن بھی مانا جاتاہے جسے وڈ ڈینسیٹی کہتے ہیں ۔ املتاس اپنے ۹۶۰ کلوگرام وزن کے ساتھ اس معیار پر بھی پورا ہے۔ شیشم اس پیمانے پر ۷۷۰ کلوگرام کے ساتھ بہت پیچھے ہے۔
املتاس کاسنسکرت نام ارگ وادھا ہےیعنی بیماریوں کو مارنے والااور اس کے اسم بامسمہ ہونے کی گواہی وہ طبی نسخاجات دیتے ہیں جو برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں صدیوں سےرائج ہیں اور بے شمار امراض میں ان گنت مریضوں کو شفایاب کر چکے ہیں۔ دنیا کے بہت سے جاگے ہوئے ممالک میں ان نسخاجات کی جدید علوم کی روشنی میں نہ صرف توسیق کی جارہی ہے بلکہ ان میں بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ہم بھی نجانے ایسی کتنی ہی ادویات استعمال کر رہے ہونگے جن میں وہ اجزا موجود ہونگے جو املتاس یا ہمارے دوسرے نباتاتی ورثےسے لئے گئے ہونگے؟ پر سانوں کی، اے اہناں دا کم اے او آپ ہی کرن!
ماحول کو صاف کرنے کی منفرد صالاحیت ، تیز رفتاری سے ہر طرح کے موسمی حالات میں بڑھنا اورزمین کے اوپر اور نیچے بہت قیمتی بائیوماس (organic matter )اور لکڑی پیدا کرنا ایک درخت سے آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ اگر پھر بھی ہم السٹونیا ، فائیکس بنجامانا اور کونوکارپس (جو درخت ہی نہیں)کا انتخاب کریں جن کا نا کوئی پھول ہے نہ پھل، نہ ان کی لکڑی کارآمد ہےنہ وہ ہمارے ماحولیاتی تنووع کا حصہ ہیں۔ تویہ کیا ہے ؟ نااہلی یا بد دیانتی؟ یا پھر دونوں؟