علم نباتات کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اسے اپنے ابتدائی دور میں ہی کل وقتی اور مکمل طور پر تربیت یافتہ سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ پودوں اور درختوں سے محبت رکھنے والے ڈاکٹروں ،سائنس اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ایسے پرجوش لوگوں کا ساتھ نصیب ہوا جنہوں نے اس کی ترقی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایااور اس میں بے بہا اضافہ کیا۔ دور کیوں جائیں خودبابائے ہندوستانی نباتات ڈاکٹر ولیم روکس برگ کو ہی لیجئے جو۱۷۷۶ میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدراس حکومت میں بطور مددگار سرجن شامل ہوئے اور اپنی قابلیت کی بنا پر۱۷۸۰ میں صرف ۲۱ سال کی عمر میں ہی سرجن بن گئے۔سرجری کی تعلیم انہوں نے ایڈن برگ سے حاصل کی وہ کچھ عرصہ نباتات کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے لیکن دوران تعلیم ان کی توجہ کا مرکز علم طب ہی رہا، شائد علم طب بہتر روزگار کا ذریعہ رہا ہوگا۔مدراس میں قیام کے دوران برصغیر کے پودوں نے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا اورکمپنی نے بھی ان کے علم نباتات سےدلی لگاؤ کو بھانپ لیا اور انہیں سمال کوٹ کے باغات کا سپرنٹنڈنٹ بنادیا گیا۔
ڈاکٹر ولیم روکس برگ نے اپنے باغ میں پودوں کے معاشی اور تجارتی استعمالات پر تجربات کئے اور مقامی فنکاروں سے مل کر مقامی پودوں کے خاکے بنانے کا اہم کام شروع کیا اور بہت جلد ۷۰۰ سے زائد پودوں کی ڈرائینگز تیار کروالیں۔یہ بہت اہم کام تھا اور بلاشبہ اسے ان کا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔۱۷۹۳ میں ان کے کام کی شہرت انہیں کلکتہ کے نباتاتی باغ کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے تک لے گئی ۔ کلکتہ کا نباتاتی باغ برصغیر کا پہلا مکمل بوٹینیکل گارڈن اور دنیا کے بڑےگارڈنز میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر ولیم روکس برگ نے بے شمار پودے اور درخت اکھٹے کئے اور ان کی نباتاتی تفصیلات طے کیں اور علم نباتات میں قابل قدر اضافہ کیا۔ انہیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا ۔ ان کے کام کو ان کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے جمع کیا اور تین جلدوں پر مشتمل شاہکار ‘‘فلورا انڈیکا ’’ لوگوں کے مطالعہ کے لئے(۱۸۲۰ ، ۱۸۲۴، اور ۱۸۳۴ ) چھاپا گیا اور آج تک برصغیر کے پودوں کے اولین اور بھروسہ مند ریکارڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ڈاکٹر ولیم روکس برگ کو بجا طور پر بابائے ہندوستانی نباتات کہا جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک اور پرجوش نباتاتی ماہر نے جو پیشے کے لحاظ سے فرانسیسی کیتھولک مشن کے پادری تھےجو جزائر ہانگ کانگ میں اپنے عقیدے کی تبلیغ پر مامور تھے نے ایک حسین اور دلکش پودا دریافت کیا۔پودا اپنی وضع قطع اور اپنے انتہائی دلکش پھول کی وجہ سے جلد لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اس کی کاشت جگہ جگہ ہونے لگی ۔ اس پودے کی نباتاتی تفصیلات طے کرنے والے ماہر نباتات جناب ایس ٹی ڈون نے اسے نباتات کے مشہور خاندان فیب ایسی کے ذیلی خاندان ‘‘باہونیا’’ میں شامل کیا اور اسے ایک اور شوقین ماہر نباتات اور ہانگ کانگ کے برطانوی گورنر سر ہنری بلیک ،جنہوں نے علم نباتات کو بہت ترقی دی کی خدمات کو سراہنے کے لئے ان سے موسوم کیا ۔
علم نباتات میں پودوں کے نام رکھنے کا طریقہ بہت دلچسپ ہے۔ عام طور پر نام کے دو یا تین حصے ہوتے ہیں۔انہیں اپنی ساخت میں مشابہت کی بنا پر کسی خاندان کا حصہ تو ضرور بنایاجاتا ہے مگر نام کا ایک حصہ پودے کے آبائی وطن میں اس کے نام سے لیا جاتا ہے اور دوسرا یا تو اس کی ظاہری شکل و صورت کی ظاہر کرتا ہے یا پھر کسی ایسے سائنسدان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کی علم نباتات کے لئے بہت خدمات ہوں۔
اب اس چینی حسینہ کو ‘‘ باہونیا بلیکی آنا ’’ کہا جاتا ہے۔اس کے نام کے دونوں حصے ہی علم نباتات میں بیش بہا اضافہ کرنے والے صاحبان پر ہے۔ ‘‘باہونیا ’’ دو سوئس فرنچ بھائیوں کیسپر باؤہین اور جین باؤہین سے لیا گیا اور ‘‘بلیکی آنا ’’ سر ہنری بلیک کے نام سے۔باؤہین برادرز بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے مگر علم نباتات کے لئے بھی ان کی خدمات ان کی تصانیف کے ذریعے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
باہونیا بلیکی آنا کی بہت سی رشتے کی بہنیں ہمارے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں اور اپنے ہم وطنوں کے بے اندازہ التفات کا مرکز بھی۔ ہم اور آپ انہیں کچنار کے نام سے جانتے ہیں۔ کچنار کی جو خواہران نسبتی ہماری ہم وطن ہیں ان میں دو بہت نمایاں ہیں، ۱۔ باہونیا ویری گیٹا ۲۔ باہونیا پورپیریا، ان کی کچی کلیاں ہمارے شاعر بطور استعارہ شاعری میں اور خواتین بطور سبزی قیمے میں استعمال کرتیں ہیں مگر ہر دو مقامات پر اس کا اپنا ہی لطف ہے۔ بطور سبزی چونکہ بہت کم وقت کے لئے بازاروں میں دستیاب ہوتی ہے لہذا بہت اچھی قیمت پاتی ہے۔
کچنار کی سلطنت بہت وسیع ہے اور اس میں پورےجنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ ساتھ چین بھی شامل ہے۔انگریز اسے اورچڈ ٹری اور اس کے پتوں کی ساخت کی بنا پر کیمل فٹ ٹری بھی کہتے ہیں۔ پنجاب اور پاکستان میں شامل تمام علاقوں کے علاوہ ہندوستان کے زیادہ تر علاقوں میں بھی اسے کچنار ہی کہا جاتا ہے ، جبکہ بنگال میں کن چن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فیب ایسی نباتات کاایک عظیم گھرانہ ہےجو نہایت اہم غذائی اور ادویاتی پودوں اور اشجار پر مشتمل ہے، اس کے بےشمار پودے ہماری روزمرہ غذا کا حصہ ہیں اسی لئے اسے عرف عام میں مٹر کا خاندان بھی کہتے ہیں ۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ادویاتی اور غذائی اہمیت کی گھاس الفالفا سے لے کرکئی اقسام کی دالوں اور چنے کے چھوٹے چھوٹے پودوں کے ساتھ ساتھ مٹر اور لوبیا وغیرہ کی بیلیں بھی ہیں اور کیکر ، شیشم اور شرینھ جسے قد آور اور بلند و بالا اشجار بھی ہیں ۔ اس کثیرالاولاد خاندان میں کوئی ۷۳۰ کے لگ بھگ ذیلی خاندان ہیں اور ان میں پودوں کی اقسام ۱۹۴۰۰ سے تجاوز کرتی ہیں۔فیب ایسی کی ایک وجہ شہرت اس کی بین الاقوامی شہریت ہے اس کا کوئی نہ کوئی رکن دنیا کے کسی نہ کسی حصے کا مقامی ہونے کا دعوے دار ہے۔ کچنار بھی اسی خاندان کا ایک فرد ہے۔
پھول تو سب کو ہی پسند ہوتے ہیں لیکن شاعروں کے لئے ان کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ انہیں پھولوں میں اپنا محبوب دکھائی دیتا ہے۔دو کلیاں جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کے ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا اور اپنے استعاراتی استعمال میں سب پھولوں پر سبقت لے لی وہ انار اور کچنار ہی ہیں۔ انار کلی اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اپنے دلربا رنگ کی باعث بھی ایک الگ مقام کی حامل ہے ۔ اگر اسے ہم نازکی اور رنگینی کا استعارہ کہ سکتے ہیں تو کچنار نوخیزی اور نرم خوئی کا استعارہ ہے۔
آئیے ایک نظر دیکھیں تو کہ کچنار میں ایسا کیا ہے جو سب شاعر وں کو دیوانہ بنائے رکھتا ہے۔ یہ کو ئی بہت بلند و بالا شجر نہیں یہی کوئی ۱۵ میٹر کے لگ بھگ اونچا ، شاخیں چاروں جانب پھیلتی ہوئی مگر بہت زیادہ پھیلی ہوئی نہیں ، اپنے حسن سے آگاہ حسینہ کی طرح سمٹی ہوئی۔ پتے بھی انوکھے ہیں ،شاخوں پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے قدرے لمبی ننھی شاخوں سے جھولتے ہوئے۔ اپنی ساخت میں مظبوط مگر باریک ، بیضوی پتے دوہم عکس حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جو کسی کتاب کے دو اوراق کی مانند دیکھائی دیتے ہیں ۔پتوں پر رگیں نیچے کی جانب زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور اس طرح کہ ۱۱ سے ۱۳ رگیں اوپر سے نیچے ایک جال سا بن دیتی ہیں جو اسے انسانی پھیپڑوں سےبھی مشابہ کرتا ہے۔ کچنار کی کاشت کے مختلف علاقوں میں اس کی مشابہات مختلف ہیں، کہیں اس کے پتوں کو انسانی پھپڑوں سے تو کہیں کتاب کی اوراق سے ملایا جاتا ہے ۔کچھ لوگوں کو اس کے پتوں میں اونٹ کا نقش پا نظر آتاہےاور یہی سب اس کی عرفیت بھی قرار پاتے ہیں۔
کچنار برصغیر پاک و ہند کےطول و عرض میں ہر جگہ پایا جاتاہے، ہمالیہ کے دامن سے کنیاکماری تک ہر جگہ۔ سطح سمندرسے ۱۳۰۰ میٹر کی بلندی سے لے کر سندھ اور پنجاب کے صحرا ئی اور میدانی علاقوں تک سب جگہ ہی پھلتا پھولتا ہے۔ زمین بھی تقریباً ہر طرح کی راس ہےلیکن زیادہ نمکیات والی زمینوں میں کاشت ذرا مشکل ہے، تیزابی زمینیں زیادہ بھاتی ہیں۔ کاشت بہت ہی آسان ہے اور اسے بیج سے اور اس کی شاخوں پر مٹھی باندھ کر اگایا جاسکتا ہے، مٹھی باندھنے کے عمل کو انگلش میں ائیر لیئرنگ بھی کہا جاتاہے۔اس کا بیج ایک سال تک نیا پودا بنانے کے لئے کارآمد ہوتا ہے۔
کچنار سدا بہار نہیں ہے مگر مکمل بے لباسی بھی اس کا شعار نہیں، سردیوں کے آخر اور بہار کے آغاز میں جب سردی سے ٹھٹھرے اور کہر کے ستائے سوکھے پیلےپتے زمیں کا زیور بن رہے ہوتے ہیں تو کچنار کی کلیاں سر اٹھاتی ہیں اور اس کا بے لباس ہوتاسراپا اپنے انوکھے پھولوں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔ ابھی جب سردی کی لمبی رات سے باقی پودے بیدار بھی نہیں ہوئے ہوتے کچنار کے بہت دلفریب مگر دھیمی خوشبو والے انتہائی دیدہ زیب پھول جو شاید اپنی مثال آپ ہی ہیں بہار کی آمد کا اعلان پورے زور و شور سے کرتے ہیں ۔ کچنار کی یہ پیش قدمی اسے بجا طور پر سفیر بہار کا رتبہ عطا کرتی ہے۔پانچ پتیوں والے یہ عجوبہ روزگار پھول گلابی کاسنی اور سفید رنگوں میں ہوتے ہیں ۔ ایک درخت پر ایک ہی رنگ کے پھول ہوتے ہیں۔پورے کھلےپھول کی پانچوں پتیاں واضح ہوتی ہیں جو اپنے رنگ اور جسامت میں ایک سی ہوتی ہیں ۔درمیان والی پتی پر رنگ کچھ گہرا ہوتا ہےاور اسے مرکز نگاہ بناتاہے۔ سفید پھول میں یہ کام ہلکا پیلا رنگ کرتاہے۔ کچنار کے سفید پھول کا سفید بھی کچھ خاص ہوتا ہے، کچھ کچھ چمکیلا سا لیکن کسی بھی اور رنگ کی کوئی ہلکی سی بھی آمیزش نہیں ہوتی، مکمل سفید ، پاک و پاکیزہ، اجلا ۔ اگر اختصار سے کہیں تو ‘‘پرنور’’ ہی اس پر صادق آتا ہے۔کچنار کے کلی سے پھول بننے کے تمام مراحل ہی قابل دید ہوتے ہیں ۔ نازک سے ننھی ننھی کلیاں جب نیم وا ہوتی ہیں اور اپنے رنگین پیراہن کی پرتوں کو پھیلاتی ہیں تو اپنے اظہار کےہر ہر پہلو پر اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتی ہیں۔
ہماری مقامی اقسام کے پھولوں کے رنگ ٹھوس ہوتے ہیں لیکن کچنار کی چینی خواہر نسبتی ( باہونیا بلیکی آنا )جس کا ذکر پہلے آیا تھا کچھ مختلف ہوتی ہے۔ اس کا رنگ گہرا گلابی اور پھول کی پتیاں پتلی اور ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتی ہیں۔ اس کے پھول سب سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں۔
کچنار کی کلیاں بڑی تعداد میں پھول بننے سے پہلے ہی توڑ لی جاتی ہیں کہ بطور سبزی اس کی بڑی مانگ ہے اور اپنے کاشتکار کے لئے بڑی منافع بخش ہے۔ پھر بھی کچنار کا درخت پھولوں سے خالی کم ہی نظر آتاہے۔ جیسے جیسے گرمی بڑھتی ہے پھول جھڑتے ہیں اور کچنار کے درخت سے لمبی لمبی پھلیاں لٹکنے لگتی ہیں ۔ آٹھ سے بارا انچ لمبی اور ایک انچ چوڑی ان پھلیوں میں کچنار کےسیاہی مائل بھورے بیج ہوتے ہیں۔ہر پھلی میں ۱۰ سے ۱۵ گول مگر چپٹے اور باریک بیج ہوتے ہیں۔ پھولوں کے گرتے ہیں پھلیاں نمودار ہوتی ہیں اس لئے اکثر کچھ سبز پھلیاں پھولوں کی موجودگی میں ہی کسی نازنین کی زلفوں کی طرح آتی جاتی ہوا کے ساتھ لہراتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان پھلیوں کو دیکھ کر ایلوپیتھک دواؤں کی گولیوں کی بلسٹر پیکنگ ذہن میں آتی ہے ۔ شاید قدرت کے اس قدر احتیاط سے پیک کئے گئے بیجوں کو دیکھ کر ہی دوا کی پیکنگ بنانے والوں کو یہ خیال آیا ہو۔
کچنار کی سلطنت بہت وسیع ہے اور پورے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ پورا چین ، انڈونیشیا ، ملایشیا، جاپان اور دور ویتنام وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ان سب علاقوں کے رہنے والوں نے کچنار کو اپنی اپنی نظر سے دیکھا اور پرکھا ہے اور سب کی وجہ التفات بھی الگ الگ ہے۔ جیسے کہ نیپال کے رہنے والوں نے اس کے پتوں کو اپنے مال مویشیوں کے لئے پروٹین سے مالامال ایک بہترین چارا پایا جوگائے ، بھینس ، بکری ہو یا بھیڑ سب ہی کا من پسند ہےاور ہو بھی کیوں نا ! اس کے پتوں میں پروٹین کی مقدار ۵ء۱۲ فیصد ہوتی ہے ۔ بطور چارہ اس کی کاشت بہت منافع بخش ہے، ایسے علاقوں میں جہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اس کے پتوں کو کئی بار حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے کاشت کاروں کے کچنار کو بطور چارہ استعمال نہ کرنے میں شاید ہماری تحقیق اور تلاش کی صلاحیت اور جذبے کا فقدان ہی ہے۔ ہم نے ناصرف تحقیق اور تلاش کو ترک کیا ہے بلکہ اپنے آباؤاجداد کے صدیوں کے تجربات کا حاصل ورثہ بھی اب ہمارے لئے قابل تقلید نہیں رہا، مغرب کی اندھی تقلید نے ہماری زرخیز زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بری طرح متاثرکیاہے۔ بنا سوچے سمجھے کیمیائی کھادوں کے بے بہا استعمال سے ہماری زمینوں میں نامیاتی اجزاء کی مقدار جو دراصل زمین کی زرخیزی کا پیمانہ ہوتی ہے خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے اور کاشت کار کو ہر آنے والے سال میں پہلے سے زیادہ کھاد ڈالنی پڑرہی ہے جو اس کے منافع کو کم کرکے سال بہ سال اسے غربت کے اندھیرے میں دھکیل رہی ہے۔ ہمیں اس صورت حال کو انتہائی برق رفتاری سے بدلنا ہوگا اور ایسا صرف اور صرف اپنا علم سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کر کے ہی کیا جاسکتا ہے۔
کچنار دلوں کو لبھاتی ہے ، اس کے پھول شہد کی مکھیوں اور دیگر حشرات الارض سے مل کر اپنی اور ان کی حیات کے کئی مرحلوں کو پایہءتکمیل تک پہنچاتے ہیں، اس کے پتے جانوروں کے لئے انتہائی صحت بخش چارہ ہیں ،اس کی کلیاں شاعروں کی حس لطیف کو ابھارتی ہیں تو کہیں دسترخوان پر اپنے کھانے والوں کے لئے لذت کام و دھن کا بندوبست کرتی نظر آتی ہیں۔صرف شاعر ہی نہیں حکما ءبھی اس کے ارادت مندوں میں شامل ہیں اور ہزاروں برس سے اس کے وجود کے ہر حصے سے حضرت انسان کو درپیش بے شمار امراض کو کمال کامیابی سے دور کرتے چلے آئے ہیں۔
کچنار کی جڑیں، چھال، گوند، پتے ، کلیاں ، پھول اور بیج سب ہی کارآمد اور شفا بخش ہیں۔ امراض کی فہرست جن کا علاج کچنار سے کیا جاتا رہا ہے طویل ہے ۔ اس میں جلد کے امراض ، اسہال اور نظام انہظام کی متعدد شکایات، ذیابیطس، جگر کے افعال کی درستگی،السر وغیرہ کے شافی علاج کے علاوہ زخموں کو بھرنے کی خصوصی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اور یہ سب محض قصہ کہانی اور گذرے زمانوں سے ہماری جذباتی وابستگی کا ہی شاخسانہ نہیں، قدیم زمانوں سے چلے آرہے نسخوں کو آج کے سائنس دانوں نے بھی مہر تصدیق لگا دی ہےاور بہت سی نئی ادویہ اب بازار میں دستیاب ہیں اور کچنار کا سفر بطور ایک مسیحا کے جاری وساری ہے۔
کچنار کا ایک انگلش نام ماونٹین ابونی بھی ہے۔ نباتات کی دنیا میں ابونی کا لفظ عام طور پر سخت اور گہرے رنگ والی لکڑی والے درختوں کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے، کچنار کی لکڑی کا رنگ بھی گہرا سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ گو ہمیں کچنار کی لکڑی کے کسی خاص اور روائیتی استعمال کے کوئی شواہد نہیں ملے مگر اس کی سخت لکڑی کی معاشی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ، ضرورت تو تلاش اور تحقیق کی ہے۔
کچنار کے درخت کو عموماً آرائیش کے لئے ہی لگایا جاتاہے ۔اس کے خوش رنگ پھول تتلیوں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں اورباغ کی رونق بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔یہ تتلیوں کی اس سے محبت ہے یا حسن اتفاق کہ کچنار کے پھول اپنی وضع قطع میں تتلیوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔اب ان معاملات محبت میں ہماری رائے زنی کچھ مناسب بات نہیں ہے۔ صرف تتلیاں ہی اس کی گرفتار محبت نہیں ہیں یہ بہت سے پرندوں اور حشرات کو بھاتا ہے۔ اس کی کاشت کسی باغ کو بھی ان سب کی پسندیدہ آماجگاہ بنا دیتی ہے اور شاید اسی لئے باغبان اسے پسند کرتے ہیں۔ افراد تو ایک طرف کچھ تو پورے ملک ہی اس کی محبت میں گرفتار ہیں، عوامی جمہوریہ چین اور اس کی ریاست ہانگ کانگ کو ہی لیں جس نے اسے اپنا قومی پھول قرار دے دیا ہے اور اب یہ ان کے جھنڈے پر براجمان ہے۔ چین میں یادگار شہدا بھی اسی کے پھولوں سے سجائی گئیں ہیں۔ ہانگ کانگ کا اعلی ترین قومی اعزاز بھی باوہینیا میڈل کہلاتا ہے۔ہمارے فنکاروں نے بھی اسے اپنے اظہار کا زریعہ بنایا اور اس کا مظاہرہ ملتانی نیلی ٹائلوں اور کاشی کاری کے قدیم نمونوں میں نظر آتا ہے۔
ملک میں کچنار کی کاشت کی موجودہ صورت حال ہمارے اپنے تمام دیگر مقامی پودوں اور درختوں سے مختلف نہیں ہے۔ حرص اور لالچ اور حد سے زیادہ منافع کمانے کی خواہش نے ٹھیکیداروں ، باغات کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور سرکاری ذمہ داروں کو اندھا کر دیا ہے۔ غیر مقامی پودوں کی کی کاشت نے بہت سے ماحولیاتی مسائل کو جنم دیا ہے اور ایسی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہم اپنے مقامی پودے صرف کتابوں میں ہی دیکھ سکیں گے۔ کچنار بھی لاہور کے علاوہ سب بڑے شہروں میں شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ لاہور میں بھی کچنار کی موجودگی دراصل لاہور کی پرانی شجر کاری کی مرہون منت ہے جو ہوئی تو غیرملکیوں (انگریزوں )کے ہاتھوں مگر صرف مقامی درختوں پر مشتمل تھی اور کچنار اس میں سرفہرست تھی۔ لاہور کی مال روڈ ہو یا ماڈل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن سب ہی پرانی آبادیوں میں ہر جگہ نظر آئے گی تاہم نئی آبادیوں میں اور ان پرانی شاہرات پر جو آج کل توسیعی مراحل سے گذررہی ہیں مفقود ہوتی جارہی ہے۔معلوم نہیں کیوں ہمارے ‘‘مقامی ماہرین’’ کے ہاتھوں صرف عجیب وغریب غیر مقامی پودے اور درخت ہی لگائے جاتے ہیں۔پرانی سڑکوں کی توسیع کی بھی سنیئے، سڑکوں کے اطراف لگے پرانے قدآور درخت بے دردی سے کاٹ دیئے جاتے ہیں اور توسیع کے کسی نقشے میں درختوں کے لئے کوئی جگہ موجود ہی نہیں ہوتی۔ سڑک کے درمیان ایک چھوٹی سے سبز پٹی ہوتی ہے جو کسی بھی درخت کے لئے مناسب نہیں ہوتی ، سڑک کے اطراف تنگ سے فٹ پاتھ کے نیچے پانی کے نکاس کا نالہ ہوتا ہے اور ان کے بعد سروس روڈ عمارات کے دہلیز تک جا پہنچتی ہے یعنی ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں اور نام نہاد ماہرین کے نزدیک درختوں اور پودوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں اور نہ ہی ان کے بنائے مستقبل کے نقشے میں ان کے لئےکوئی جگہ۔