ہم ایسی دنیا کے باسی ہیں جو ہر لمحہ بدلتی ہےاور اس کے اسی تغیر کو زندگی بھی کہا جاتا ہے۔یہ تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے جیسے کہ دن اور رات کا ہونا یا پھر دنوں کا مہینوں اور سالوں میں بدل جانا، بچے کا جوان اور جوان کا بوڑھا ہونا وغیرہ۔ یہ سب کچھ مسلسل اور جاری عمل ہے اور ایک خاص وقفے اور توازن کا محتاج ہے۔ موسموں کا بدلتے رہنا بھی اس کی ایک اور مثال ہے۔ہماری زندگی میں اس توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس میں معمولی تبدیلی بھی بہت گھمبیر نتائج کی حامل ہوتی ہےجیسے کہ کسی بچے کا قبل از وقت جوان ہوجانا یا پھر وقت سے پہلے ہی بوڑھا اور ناتواں ہوجانا ، گرمی کے مہینے میں گرمی کا نہ ہونا یا بارش کے موسم میں خشک سالی، ہمارے گھریلو تعلقات ، سماجی روابط ، انفرادی اور اجتماعی اقتصادی حالات سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
انسان زمین پر پائی جانے والی زندگی کی مختلف اشکال میں سے ایک ہے ۔ زمین کے استعمال میں پرندے، حیوانات ، حشرات اور نباتات وغیرہ اس کے شراکت دار ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی اپنے حصے سے زیادہ لینا اس توازن کو بگاڑنے اور سب کے لئے ہی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ حضرت انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے اسے بری طرح متاثر کیا ہے ۔زمین پر سبز چادر کے رقبے میں مسلسل کمی نے موسموں کو متاثر کیا ہے اور ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس سے خود اس کی اپنی خوراک کی دستیابی ایک گھمبیر مسلٔہ بن چکی ہے۔
ایسی ہی ایک مشکل ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش میں بھی تھی اور یہ ریاست اپنے کاشتکاروں کی طرف سے کی جانے والی خودکشیوں وجہ سےپورے ملک میں بدنام ہورہی تھی۔مسلسل کئی سال تک بارش کے نہ ہونے سے اور درختوں کی تعداد میں انتہائی کمی سے زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار اپنی کم ترین سطح پرتھی اور یہ زمین اپنے کاشتکار کو تمام تر محنت کے باوجود پیٹ بھر روٹی تک دینے کے قابل نہ تھی، ایسے میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے سوأ اور کوئی راستہ نہ تھا۔۱۹۹۶ سے ۲۰۰۴ کے درمیانی عرصےمیں حالات بہت بگڑ گئے اور خودکشوں کی تعدادہزاروں میں جا پہنچی۔
یہ صورت حال سب ہی کے لئے تشویش کا باعث تھی اور سب ہی اس کا قابل عمل حل کھوجنا چاہتے تھے۔ انہیں میں سے ایک گروہ ہندوستان کے شہر بنگلورو میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس کا بھی تھا ۔ جو قحط زدہ علاقوں میں زراعت کے لئےپانی کی فراہمی ممکن بنانے کےارزاں اور قابل عمل حل کے لئے دیہاتیوں سے مشاورت کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ ان بنجر اور بیابان علاقوں میں جہاں کچھ بھی نہیں پنپ رہاتھا، ایک چیز نے انہیں چونکا دیا اور وہ تھا ایک درخت جواس قحط زدہ علاقے میں جہاں ہر چیز سوکھی اور بے جان تھی یہ نہ صرف ہرا بھرا تھا بلکہ خوب پھل پھول بھی رہا تھا۔ غور کر نے سے معلوم ہوا کہ یہ ایک مقامی درخت ہے اور صدیوں سے کاشت ہوتاآیا ہے ، اور اسکے بیجوں کا تیل دیے روشن کرنے اور صابن بنانے کے کام بھی آتا ہے۔
لوگوں کے لئے عام سا یہ درخت سائنسدانوں کے لئے امید کی ایک کرن ثابت ہوا، تحقیق نے اسکی قدروقیمت میں بے اندازہ اضافہ کر دیا اور اب اس کی کاشت کو توانائی کی کاشت کہا جاتا ہے۔اس کا وطن صرف جنوبی ہندوستان ہی نہیں بلا شبہ پورا برصغیر پاک و ہند ہے۔ہمالیہ کے دامن سے جنوبی ہند اور برما سے جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگستانوں تک سب ہی جگہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے اور کاشت بھی ہوتا رہا ہے۔ آیئے اپنے اس ہم وطن سے ملیئے جس کو ہم نے فراموش کر رکھا ہے۔
اسے جنوبی ہند میں اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں کارنج، پونگ، پونگم اور ہونگ کہا جاتا ہے، انگریز نے اسے ہندوستان کے ساحلوں پر لہراتے دیکھا تو انڈین بیچ ٹری کا نام دے دیا۔ دونوں طرف کے پنجاب اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں اس عجوبۂ روز گار سے محبت کا یہ عالم رہا ہے کہ اسے سکھ چین کا نام دیا گیا۔ آیئےاس پر کچھ اور غور کریں کہ یہ نام کہاں سے آیا۔
سکھ چین ایک مرکب لفظ ہے اور دو الفاظ یعنی سکھ اور چین سے مل کر بنا ہے جو تقریباً ہم معنی ہیں۔سکھ ایک احساس ہے جو ہمیں کسی سے حاصل ہوتا ہے اور چین ایک کیفیت ہے جوکسی مقام پر پائی جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ نباتاتی لاطینی میں ‘‘پونگامیہ پائی نیٹا ’’ کہلانے والے اس درخت کو سکھ چین کا نام ہی کیوں دیاگیا؟ اگر آپ نے اسے نظر بھر کر دیکھا ہے یا آپ اس کی بھرپور چھاؤں میں کچھ دیر کو سستائے ہیں تو یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔
سکھ چین کی چھاؤں بہت گہری اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔موسم بہار کے اختتام پر جب سورج مہاراج کا تاپمان بڑھنے لگتا ہے تو سکھ چین اپنے نئے پتے نکالتاہےبہت ہی ہلکے اور نرالے سبز رنگ کے پتوں سے چھن کر سورج کی تیز دھوپ ایک الگ ہی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اور اس الگ سی روشنی میں سکھ چین کوصرف دیکھنا ہی باعث طمانیت ہوتاہے۔ سبز کا ایسا منفرد رنگ اور اس سے چھن کر آتی سحر انگیزروشنی اپنے اندر ایک جادو سا لئے ہوتی ہے جس سے بچنا محال ہے۔کوئی بھی اس ساحر درخت کی چھتری کے اندر اور باہر روشنیوں کے اس فرق سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔چمکتی دھوپ میں سکھ چین کے نیچے سکھ اور چین کے علاوہ ایک نیا رنگ اور احساس بھی ہوتاہےجو لفظ بیان نہیں کرسکتے۔
اپنے شجرہ نسب کے مطابق یہ ایک خاندانی درخت کہلاسکتا ہے۔ سکھ چین نباتات کے وسیع اور عظیم خاندان ‘‘فیب ایسی ’’کے لگ بھگ ۱۹۴۰۰ ارکان میں سےایک ہے اور خوب ہے۔اسی خاندان کے اور بھی بہت سے پودے اور درخت ہماری خوراک کا حصہ ہیں جن میں لوبیہ ، مٹر، چنے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔صنعتی دور سے پہلے مسواک دانت صاف کرنے کا ایک اہم زریعہ تھی۔ مسواک میں ٹوتھ پیسٹ اور برش دونوں ہی موجود ہوتے ہیں۔ مسواک کرنے والے سکھ چین سے ضرور واقف ہوتے ہیں کہ اس کی نرم نرم شاخیں اپنے اچھے ذائقے اور تازگی کے بھرپور احساس کی بنا پر بطور مسواک بہت مقبول ہیں۔
سکھ چین درمیانے قد کاٹھ کا درخت ہے جو پندرہ سے پچیس میٹر تک بلند ہوسکتا ہے اور اس کی چھتری بھی اسی قدر چوڑی اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ تقسیم ہوتی اوپر کو بڑھتی ہوئی ٹیڑھی میڑھی شاخوں اور تنے کا رنگ سلیٹی ہوتا ہےچھال زیادہ کھردری نہیں ہوتی اور اپنے بھلے رنگ کی وجہ سے خوشگوار تاثر ابھارتی ہیں۔موسم گرما کی شروعات میں نمودار ہونے والے یہ پتے ایک دوسرے کے آمنے سامنے دو دو کی جوڑیوں میں ایک ہی شاخ پر سات سے نو کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ پہلے ہلکے گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور پھر بہت ہی خوشگوار سبز ہو جاتے ہیں ۔ یہ سبز رنگ وقت کے ساتھ گہرا ہوتا رہتا ہے۔پت جھڑ سے پہلے ان کا رنگ شاید جدائی کے خوف سے زرد پڑجاتا ہے اور پھر بھورا۔ اپنی شاخ سے جدا ہوکر بھی یہ اپنے کام سے غافل نہیں ہوتا، درخت کے اطراف میں اور جہاں تک ہوا اڑا لے جائےزمین کی بالائی سطح( جسے اصطلاحاً ٹاپ سوائل بھی کہتے ہیں اور جو زمین کی زرخیزی کا ایک پیمانہ بھی ہے) میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری مراحل میں پتوں پر سفید رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں جنہیں کچھ ماہرین کی رائے میں ایک وائرس کا حملہ بتایا جاتا ہے جب کہ ہمارے باغبان اسے ان کی زندگی کا ایک مرحلہ ہی بتاتے ہیں۔ سکھ چین کے ہر درخت کے ہر پتے پر اور ہر جگہ ایک ہی جیسے دھبے اور ان سے درخت کو کوئی نقصان نہ ہونا ہمیں باغبانوں کی رائے کو زیادہ فوقیت دینے پر مجبور کرتا ہے۔ پت جھڑ میں بھی سکھ چین کا نظارہ الگ ہی ہوتا ہے ، اس کے اطراف کی زمین پوری طرح اس کے سوکھے پتوں سے ڈھکی ہوتی ہے۔
پھول گچھوں کی صورت سارا سال ہی آتے رہتے ہیں اور اتنےکہ درخت ان سے لد جاتا ہے۔سفید گلابی اور ہلکے کاسنی رنگ کے یہ پھول خوشبو دار نہیں ہوتے مگر پھر بھی شہد کی مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض ان کی پذیرائی آگے بڑھ کر کرتے ہیں اور یوں نباتاتی عمل کو بڑھاوا ملتا ہے۔یہ پھول اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر زمین کا زیور ہوجاتے ہیں اور درخت کے نیچے کی زمین ان کے ہی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔باغبان بھی ان سے بہت عمدہ نامیاتی کھاد تیار کرتے ہیں جو اپنے معیار اور اثر انگیزی کے باعث مشہور ہے۔
پھولوں کے بعد باری آتی ہے پھلیوں کی جو فوراً ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ سموسہ نما پھلیاں شروع میں سبز مگر سوکھ کر خاکی رنگ کی ہوجاتی ہیں۔ ان پھلیوں یا سیڈ پوڈ میں ایک ہی بیج ہوتا ہے۔یہ اکلوتا بیج تیل سے بھرا ہوتا ہے۔ اپنے کل خشک وزن کے چالیس فیصد کے برابر جو اسے تیل دار بیجوں میں اعلی مقام دلاتا ہے۔روائیتی طور پر برصغیر کے باشندے اس کے تیل سے واقف تھے اور اس کا استعمال اپنے گھروں کے چراغ روشن کرنے اور کچھ علاقوں میں صابن بنانے میں بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔ مسواک اور چراغوں کے تیل کے لئے کاشت کئے جانے والے اس درخت کی معاشی اہمیت اور افادیت پر پڑے پردے جدید سائنس اور تحقیق نے اٹھا دیئے ہیں۔اب اس کے تیل کو ایک چھوٹے سے کیمیائی عمل سے گزار کر موٹر گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ڈیزل کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے ۔
انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس ، بنگلورو کے سائنس دانوں نے امید کی جو کرن ایک دیہاتی علاقےکے دورے کے دوران دیکھی تھی تحقیق نے اسے ایک روشن مینار بنادیا۔ سکھ چین کا درخت چار سال میں پھول دینا شروع کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں مکمل درخت اور بھرپور پیداوار کے قابل ہوتا تھا، پرعزم سائنسدانوں نے پیوند کاری سےاس کی ایسی قسم تیار کی جو تین سال کے قلیل عرصے میں ہی مکمل درخت اور بھرپور پیداوار دیتی ہے۔ اس طرح انتظار کی مدت ختم ہوئی اور اس کی کاشت بطور ایک فصل کے ممکن ہوئی۔
اب مرحلہ تھا خود کشی پر آمادہ مایوس کسانوں کو یہ باور کرانے کا کہ سکھ چین کی کاشت ان کی زندگیوں میں سکھ چین لاسکتی ہے۔ ایک ایسی فصل جو ان کی غذأ نہیں بن سکتی ان کو غذائی قلت سے نجات دلا سکتی ہے۔یہ ایک صبرآزما اور کٹھن کام تھاجسے بہت تندہی سے انجام دیا گیا۔کاشکاروں کو حیرت ہوئی جب انہوں نے جانا کہ چاول کی چار ایکڑ پر کاشت کے لئے جتنا پانی چاہیے اسی پانی میں سکھ چین ایک سو پچاس ایکڑ پر کاشت ہوسکتا ہے۔اپنی نوعیت کی اس انوکھی مہم کو کامیابی اس وقت ملی جب حکومت نے سکھ چین درخت کی کاشت اور اس سے معاشی طور پر منافع بخش پیداوار حاصل ہونے کے عرصے میں جو تین سال پر محیط تھا کے لئے کاشتکاروں کو ۳۰۰ کلو گرام چاول فی ایکڑ کی امداد دینا منظور کیا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ ایکڑ زیرکاشت لائے گئےاور کاشت سے منافع بخش ہونے تک کے عرصے میں ان کی غذائی ضروریات کے تحفظ نے کاشتکاروں کو آمادہ کیا کہ وہ اس نئے اور انوکھے سفر پر روانہ ہوں۔
تحقیق اور اسے کاشتکار تک پہچانے کے لئے ادارے ہر سطح پرمملکت خدادا پاکستان کے ہر صوبے میں بھی موجود ہیں ۔ زمین کی زرخیزی اور میٹھے پانی کی کمیابی جیسے مسائل بھی موجود ہیں اگر کمی ہے تو اس درد دل کی جو ہمیں اپنے ہم وطنوں درد کو اپنا ہی درد سمجھنے پر مجبور کرے، کمی ہے تو ادارہ جاتی سطح پر ارادے کی اور انفرادی سطح پر اپنے کام کو ایسے کرنے کی کہ جیسا کرنے کا حق ہے۔
نہری نظام میں توسیع اور دریاؤں پر پانی ذخیرہ کر نے کے لئے بندوں کی تعمیر اور موسمی تغیرات کی بنا پر دریاؤں میں پانی کی کمی نے سب سے زیاد صوبہ سندھ کو متاثر کیا ہے۔میٹھے پانی کے سندھ ڈیلٹا میں نہ جانے کی وجہ سے سمندر کا پانی اوپر خشکی چڑھ آیا، سائنسی اصطلاح میں اسے‘‘ سی واٹر اٹروجن’’ کہتے ہیں۔ اس نے زیرزمین پانی کو کھارا اور زمین میں نمکیات کی مقدار کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ اورنتیجےمیں سندھ کے کئی اضلاع کی زمین میٹھے پانی کی عدم دستیابی کے باعث قابل کاشت نہ رہی۔ پانی کی مقدار کو بڑھانے پر ہم قدرت نہیں رکھتے اور شاید تحقیق پر یقین۔ اسی لئے جس چیز میں اضافہ مسلسل ہورہا ہے وہ غربت ہے۔ بے اندازہ زمینیں اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں ، مگر وہ کب آئے گا؟
سفر وسیلہ ظفر کا محاورہ بھی اس مہم کے دوران لوگوں کو اپنے معنی بہتر طور پرسمجھانے میں کامیاب ہوا اور اس میں شامل افراد، سرکاری اور نجی ادارے سب ہی نئے تجربات سے گذرے اور کامیابی کو ایک الگ اور اجتماعی طور پر محسوس کیا گیا۔اس کی ابتدأ چند ہزار خاندانوں اور دس ہزار ایکڑ پر سکھ چین کی کاشت سے۲۰۰۳ کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ کر چالیس ہزار خاندان ایک لاکھ ایکڑ پر سکھ چین بونے اور سکھ چین ہی کاٹنے میں مصروف ہو گئے۔
جہاں سکھ چین نے لوگوں کی زندگی سے مایوسیوں کے اندھیرے ختم کر کے امید کی روشنی بھر دی وہیں خود اس کی اپنی زندگی کے اسرارورموز بھی اس کے ہم وطنوں پر آشکار ہونے لگے۔ جو پہلے کہیں صرف ایک اچھی مسواک تھی اور کہیں صابن بنانے کا ایک تیل، اب ایک بھرپور معاشی سرگرمی کا محرک اور طویل عرصے ساتھ نبھانے والا اور سکھ چین باٹنے والا ہم سفر بن گیا، اور یہ سب خود انحصاری کے جذبے، یقین محکم اور تحقیق کی بدولت ممکن ہوا۔
اس کے وجود کا ہر حصہ نمو پانے سے فنا ہونے تک معاشی سرگرمیوں کا سرخیل اوراپنے ہم وطنوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیں تجربے سے حاصل ہوئی۔سکھ چین زمین کے اوپر کیا کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے اس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ، زمین کے نیچے بھی اس کی کارکردگی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس کی جڑوں کا بے حد مربوط اور پھیلا ہوا جال زمین کے نامیاتی خزانے میں بے حد اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ شروع میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ اس کا تعلق پھلی دار درختوں اور پودوں کے خاندان ‘‘فیب ایسی’’ سے ہے۔ اس خاندان کے سبھی ارکان ایک خاص صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی جڑوں کا ایک حصہ جسے ‘‘روٹ نوڈلز’’ کہتے ہیں ‘‘نائٹروجن فکسنگ’’ کرتا ہے یعنی ہوا میں موجود نائٹروجن گیس کو پودوں کے استعمال کے قابل نائٹروجن کھاد میں تبدیل کرتا ہے اس طرح خود اس کی اپنی ضروریات کے علاوہ اردگرد کی زمین بھی رزخیز ہوجاتی ہے یوں بنجر زمین کو بحال کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔
سکھ چین کی جڑوں کا ہمہ جہت نظام گہرائی میں جاکر زمین میں پوشیدہ قدرت کے بےبہا خزانے خود اس کے انپے لئے اور اردگرد کی زمین پر کاشت کئے گئے اور پودوں کے لئے دستیاب کرنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔سکھ چین کی کاشت کوئی مشقت بھرا کام نہیں۔ اسے بیج سے ہر طرح کی زمین بنجر یا زرخیز، کلراٹھ اور شورزدہ سب میں ہی یکساں طور پر کاشت کیا جاسکتا ہے ۔ اسے پوری دھوپ درکار ہے اور یہ حیران کن حد تک موسمی تغیر اور درجہ حرارت میں کمی بیشی کو برداشت کر سکتا ہے۔ نقطۂ انجماد سے بھی پانچ ڈگری نیچے سے لے کر جنوبی پنجاب کے گرم صحرائی علاقوں کا پچاس ڈگری سے بھی زیادہ گرم موسم اس کے لئے کوئی روکاوٹ نہیں۔ زندگی کی شروعات میں کچھ توجہ کا طالب ضرور ہوتا ہے کہ اس کی ابتدائی تراش خراش سے ہی اس کے خدوخال بنائے جاتے ہیں اور زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔
آندھرا پردیش کے اس کامیاب تجربے سے علم میں اضافہ ہوا اور نئی راہیں کھلی، بیجوں سے تیل حاصل کر لینے کے بعد بچ جانے والا پھوک جانوروں کے کھانے کے لائق نہ تھا مگر کھیتوں میں بطور کھاد استعمال ہوسکتا تھا، سائنسدانوں نے اس کے خمیر سے پیدا ہونے والی گیس کو کھانا پکانے اور بطور بائیوگیس موٹر گاڑیاں ٹریکٹر اور ٹیوب ویل وغیرہ چلانے کے لئے استعمال کیا اور اس سے بھی بچ جانے والے مادے کو بہترین نامیاتی کھاد قرار دیا، گویا صرف ایک ہم وطن پودے نے امید کے اتنے دیئے روشن کئے کہ گاؤں کے گاؤں اس کے نور سے جگمگانے لگے۔
سکھ چین ہمارا اپنا درخت ہے ، اس پر تحقیق انڈیا کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی ہو رہی ہے اور اسے متفقہ طور پر زرعی شجرکاری کے لئے بہترین انتخاب کہا جا رہا ہے۔ اس کی وسیع اور گھنی چھتری ہمیں ٹھنڈی چھاؤں تو دیتی ہی ہے ساتھ ہی زمین سے نمی کے بخارات میں تبدیل ہو کر اڑ جانے کے عمل کو روکتی ہے، اس کی جڑیں زمین میں نمی محفوظ رکنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔اس کے گرم موسموں کو برداشت کرنے کے مزاج کی بنا پر افریقی ممالک یوگنڈا اور کیمرون نے۲۰۰۶ میں اس کی کاشت وسیع رقباجات پر کی ہے ۔ اس پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ اس کی کاشت براعظم افریقہ کے طول عرض میں کی جائے تاکہ زیرزمین نمی کو برقرار رکھا جاسکے، زیر زمین نامیاتی مادے میں اضافہ ہو۔ صحرا ٔ کو بڑھنے سے روکا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ بائیو ڈیزل کی بھرپور فصل بھی حاصل کی جاسکے۔ایک بار کاشت کیا جانے والا سکھ چین پچاس برس تک بھرپور پیداوار دیتا ہے۔
آیئے اب کچھ احوال مملکت خدادا پاکستان میں سکھ چین اور اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ہوجائے۔ صورت حال کچھ اچھی نہیں ہے۔لاہور کی پرانی شجرکاری کے کچھ عمدہ شجر اب بھی لاہور کی سڑکوں اور باغوں میں موجود ہیں۔ باقی سب اللہ اللہ ہی ہے۔اول تو نئی تعمیرات اور ان کے ڈیزائن میں پودوں اور درختوں کے لئے کوئی جگہ مختص کر نے کا کوئی رواج ہی نہیں رہالیکن اگر کسی نئی تعمیر کی گئی سڑک کے اطراف کسی قسم کی شجرکاری کے لئے جگہ چھوڑی بھی گئی ہے تو اس پر بدیسی پودوں کا قبضہ نظر آئے گا ، بدیسی پودوں کا بھی کیا قصور ، وہ خود کب یہاں خوش رہ سکتے ہیں، ان کی نشو ونما بھی تو ٹھیک سے نہیں ہوتی، مگر کیا کیا جائے اس لالچ اور جہالت کا کہ جو اسی پر اسرار کرتی ہے۔ ویسے تو دستیاب وسائل اور ترقیاتی کاموں کے لحاظ سے پنجاب میں لاہور کےعلاوہ، کوئی بھی شہر بڑا شہر کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ پھر بھی تقابل کے لئے اگر ملتان ، فیصل آباد اور راولپنڈی وغیرہ کو دیکھا جائے تو وہاں نئی شجر کاری کی بجائے بزرگوں کے لگائےدرختوں کی بربادی ہی نظر آتی ہے۔ ملتان میں جو سڑکیں بجا طور پر ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھیں آج دھوپ سے بھری ، بے رحم اور مسافر کش دیکھائی دیتی ہیں۔دور دور تک کہیں سستانے کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پیدل چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ تو غائب ہوئے ہی ہیں سایٔہ بھی جاتا رہا۔
کسی موٹر وے کسی ہائی وے پر کہیں سکھ چین کے بندہ پرور درختوں کی کوئی قطار نہیں ہے۔ اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ سمیت کئی شہروں کی ایسی ہی شاہرات پرجہاں کے موسمی حالات ان کی کاشت کے لئے ہر گز موزوں نہیں کھجور کے موسم سے جوجتے، پریشان درختوں کی قطار دیکھ کر انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ملتان میں مرطوب علاقوں کے پام اور سائیکس پام (کنگھی پام) اور اسلام آباد میں کھجور۔ میٹھے اور نمکین پانی کے درمیان پنپنے والے مخصوص پودے جنہیں ‘‘مینگروز’’ کہا جاتا ہےسے کراچی کی سڑکوں کو بھر دیا گیا اور اب وہ بد نصیب پودے پورے سندھ ، ملتان اور لاہور کی سڑکوں پر بھی نظر آرہے ہیں۔ اس غیر منطقی رویے کی کیا وجہ ہے؟ کیا صرف کم علمی اور نااہلی ہی اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے سول سروس کے بابو پودوں کے بارے میں نہیں جانتے ۔ تو کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی ماہر سے پوچھا نہیں جاسکتا؟ کیا یہ نااہلی اور جہالت سے آگے کی کوئی کہانی ہے جو قابل دست اندازیٔ نیب ہے ؟ یہ وہ سب سوالات ہیں جووطن سے پیار کرنے والوں کو بہت پریشان کرتے ہیں ، کیا ان کا کوئی جواب ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اس صورت حال کے ذمہ داروں کو پریشان کر سکے؟ اس پر بات ضرور کیجئے اور کوئی بھی حل آپ کو ملے توہم سے سانجھا کیجئے