بہت پرانی بات ہے، غالباً ۷۸۰ ءسے ۱۰۶۶ ءکے درمیانی عرصے کاذکر  ہے۔ یہ عرصہ یورپ کی قدیم تاریخ میں ‘‘ وائی کنگ’’ دور کہلاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ بھر میں چھوٹا بڑا کوئی بھی قلعہ وائی کنگ جنگ جووں سے محفوظ نہ تھا۔ ایسی ہی ایک رات تھی جب دبے پاؤں آگے بڑھتے ہوئے ایک برہنہ پا  وائی کنگ کا پاؤں کانٹوں سے بھر پور ایک جنگلی پھول پر پڑا جس نے اسے بے اختیار چیخنے پر مجبور کر دیا، یوں پہرے دار چوکنے ہوگئے اور ان کا قلعہ ایک شب خون سے بچ گیا۔ سکارٹ لینڈ کے بادشاہ نے اس پھول کو سراہنے کے لئے ایک شاہی اعزاز کا اجرأ کیا جو ‘‘آڈر آف دی تھیسل’’ کہلاتا ہے۔ آج بھی سکارٹ لینڈ کا قومی پھول ایک تھیسل ہی ہے۔تھیسل جنگلی پھولوں یا جڑی بوٹیوں کی ایسی قسم ہوتی ہے جو سراسر کانٹوں سے بھر پور ہوتی ہے۔ ہم پنجاب میں انہیں ‘‘کنڈیاری’’ کہتے ہیں ان میں کئی رنگوں کے پھول ہوتے ہیں، سرخ ،پیلے،  نارنجی اور کاسنی اب بھی ہمارے دیہاتی منظر نامے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ان کی ایک سماجی و معاشی حیثیت بھی تھی اور ادبی حوالہ بھی، وہ بھی تو ایک کنڈیاری  ہی تھی جس پر بلھے شاہ نے اپنی بے مثال کافی  ‘‘ نی میں کوسمبڑا چن چن ہاری ’’ لکھی۔وہ کافی بھی کیا ہے ، چیخ ہے ۔ شاید بلھے شاہ بھی ننگے پاؤں تھا یا پھر اس کے کانٹے اتنےتیز اور  نوکیلے تھے کی روح تک کو زخمی کر ڈالا،  کافی کے مضامین پر نظر کریں تو لگتا ہے کو سمبہ تو ایک استعارہ ہے ، میٹافر ہےاور بیان تو معاشی ناہمواریوں اور اس استحصال کاہے جو ہر دور میں صورت بدل بدل کر معاشرے کو بد صورت کرنےکے جتن کرتا رہتا ہے۔

لیجئے میں بھی کیا کہانی لے بیٹھا اور اس  سب میں آپ سے اس عجوبہ روزگار کا مناسب تعارف بھی نہ کراسکا، چلئےچھوڑیئے سب باتوں کو اور ملئے‘‘ کوسمبے’’ سے جو ہے تو کانٹوں سے بھرا  ایک جنگلی پھول جو پودوں کی درجہ بندی میں ‘‘جڑی بوٹی’’ کے خانے میں ہے پر کبھی یہ اپنی رومان پروری کے لئے جانا جاتا تھا۔

جب جون جولائی کی دھوپ جب اپنی چھب دیکھانے لگتی اور خودرو جنگلی پودے اور جھاڑیاں  اونچی  نیچی بنجر زمینوں میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ، کچھ پیلی ، نارنجی اور سرخ  رنگوں کی باریک باریک پتیوںوالے کانٹے دار خودرو پھول دھرتی کے وسیع منظر میں خود کو منفرد ظاہر کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف نظر آتے، ایسا تو کہیں کہیں اب بھی ہوتا ہےپر گزرے زمانوں میں رنگ برنگی چنریوں کو لہراتی، کوسمبے کے تیز نوکیلے کانٹوں کی دست درازیوں سے بے پرواہ ان پھولوں کی پتیاں چنتی دوشیزائیں بھی اسی منظر کا لازمی حصہ تھیں جنہیں صنعتی انقلاب کے باعث ہونے والے معاشی بدلاؤ( جسے ہم ‘‘ ترقی’’ بھی کہہ دہتے ہیں) نے غائب کردیا۔

کانٹوں سے بھر پور اس پودے سے پتیاں چننا بھی ایک دکھ بھرا کام ہے جو چننے والے کے ہاتھوں کو خون کے آنسو رولا دیتا ہے۔کوسمبہ بھی ایک عجیب پودا ہے اوپر سے جتنا دیدہ زیب اور بھلا لگتا ہے نیچے سے اتنا ہی کرخت اور بدنما، اور پھر اس کے کانٹے ، ان سے تو توبہ ہی بھلی۔کانٹے تو گلاب پر بھی ہوتے ہیں پر ان کی کوئی حد تو ہو۔ جی ہاں یہی وہ کوسمبہ ہے جس پر صدیوں پنجاب کی مٹیاریں فدا رہیں اور اس کی پتیاں چننے کا کٹھن کام اپنے ذمے لئے رکھا۔اور کرتیں بھی کیوں نہ۔ ان کی اپنی شادی کا جوڑا رنگنے کے لئے ضرورت بھی تو انہیں کی سرخ پتیوں کی ہوتی تھی۔اپنے ارمانوں کا جوڑا رنگنے کے لئے خود ہی پھول کی پتیاں چننا بھی کس قدر رومانی کام ہے، کسی کے خیالوں میں گم ہو کر ایسے کانٹوں بھرے پودے سے کھیلنا ، زخم لگنا تو لازم ہے۔

کوسمبے کا کوئی حصہ بھی کانٹوں سے خالی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کے پتوں پر بھی باریک باریک  کانٹے ہوتے ہیں۔کوسمبہ کی آماجگاہ بہت وسیع ہے، اختصار کے لئے ہم اسے میڈیٹرینین بیسن کہہ سکتے ہیں یعنی تین براعظموں پر محیط ، ایشیا ، افریقہ ،جنوبی امریکہ کے علاوہ شمالی امریکہ کے گرم اور خشک علاقے اور آسٹریلیا شامل ہیں۔کوسمبہ مختلف حالات اور موسموں کے تغیر کے باعث ایک فٹ سے پانچ فٹ تک بلند ہوسکتا ہے، تنا سفیدی مائل سبز، موٹا اور سیدھا، اوپر کی جانب کئی شاخوں میں بٹ جاتا ہے اور سب سے اوپر پھول ، پھول کی شکل کچھ کچھ صراحی سے مشابہ، نیچے سے پھولا ہوا ،گول اوردھانے سے تنگ، اس تنگ  دھن سے پتیاں ایسے نمودار ہوتی ہیں گویا پھول گلدان میں سجے ہوں۔ اس وضع قطع کے پھولوں کو ہی تھیسل یا کنڈیاری کہتے ہیں۔پتے چوڑے اور بیضوی ہوتے ہیں رنگ گہرا سبز جو وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا ہے۔پتوں پر رگیں ہلکے سبز رنگ کی اور نمایاں ہوتی ہیں۔ کوسمبے کے سب ہی حصے اپنی ضرورت کا پانی محفوظ رکھنے صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے کوسمبے کو انگریز سیف فلاور کہتے ہیں اور نباتات کی کتابوں میں  ‘‘ کارتھامس ٹنک ٹوریس’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک اور انفرادیت کوسمبے کی یہ بھی ہے کہ سب ہی پودوں کے نباتاتی نام لاطینی زبان سے ہوتے ہیں مگر اس کے نام کا ماخذ لاطینی کی بجائے عربی زبان کا لفظ ‘‘قرطم’’ ہےجو رنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے قدیم اور تاریخی استعمال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔اس سے لفظ کارتھامائین بھی نکلا ہے جو قدرتی ذرائع سے حاصل شدہ سرخ رنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں کوسمبہ الاصفر کہا جاتا ہے جو اصفر سے بنا اور پیلے یا زرد کو کہا جاتا ہے، ہسپانوی زبان میں‘‘ الازور’’اور اٹلی کے باسی ‘‘اصفی اور’’، ترک زبان میں‘‘ حاصبر’’اور روس اور مغربی یورپ میں ‘‘سیف لور’’ غرض اس کی کاشت کے سبھی علاقوں میں اس کے نام کا ماخذ اس کا عربی نام ہی ہے۔ اس کے نباتاتی نام کا دوسرا حصہ انگلش زبان سےہے جس کے معنی  رنگساز کے ہیں۔یعنی جو رنگ دے۔

کچھ محقیقین کی نظر میں اس کا آبائی وطن دریائے فرات کی وادی ہے جو ترکی سے نکلتا ہے اور شام کے راستے عراق میں داخل ہوتا ہے اور شط العرب کے مقام پر خلیج فارس میں جا گرتا ہے۔ اس طرح ان چار ممالک کو اپنی ستائیس سو کلو میٹر طویل ڈور سے باندھے رکھتا ہے۔اس کا یہ حوالہ تاریخی بھی ہےاور دلوں کو چھو لینے والا بھی، دریائے فرات، کربلا ، سرخ رنگ، بنا پانی کے سرخرو ہونا وغیرہ۔

رنگوں کی قوس قزاح بہت وسیع ہے اور اس میں کوسمبے کو قدرتی سرخ نمبرچھبیس دیا گیا ہےجو نہ صرف کپڑوں کی رنگائی بلکہ کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کوسمبہ پودوں میں ایک لاڈلے کا درجہ بھی رکھتا ہے اور اس کے ناموں کے علاوہ اس کی عرفیت بھی ہیں ۔ اپنے رنگ کی زعفران سے مشابہت کی بنا پراسےزعفران میں  ملاوٹ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی ایک عرفیت بناوٹی زعفران بھی ہے اور انگریز تو اسے باسٹرڈ یا ناجائز زعفران بھی کہتے ہیں۔

کوسمبہ نے اپنی کاشت کے سب علاقوں اور تہذیبوں کو متاثر کیا ہے،پنجاب سے مصر تک ہر ملک اور تہذیب میں اس کے حسن اور حشر سامانیوں کی کوئی نہ کوئی داستان موجود ہے، فراعین مصر کے ایک ممتازفرعون توت آمن آنخ کے تابوت سے کوسمبے کےسوکھے پھولوں کی لڑیاں برامد ہوئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عظیم الشان بادشاہ کا دربار بھی اس کی رنگینیوں سے خالی نہ تھا اور اس نے کوسمبہ کا ساتھ اپنے ابدی سفر میں بھی لازمی سمجھا۔اسی طرح اور بھی فراعین مصر کے اہراموں سے ملنے والے کپڑوں میں بھی اسی کی رنگبازی دکھائی دی۔

پنجاب کی ثقافت کا کوسمبے سے رشتہ بہت خصوصی، گہرا اور رومانی ہے،نوجوان لڑکیاں جنگل سے اس کی پتیاں چنتے چنتے اپنےنازک  ہاتھ زخمی کر لیا کرتیں تھیں کہ اپنی شادی کے جوڑے کو سرخ رنگ دینے کے لئے اس کی پتیوں سے رنگ بناسکیں ، وہ بھی کیا منظر ہوتا ہوگا جب کسی کے خیالوں میں گم ، آپ ہی آپ بے بات مسکراتی لڑکیاں نوکیلے کانٹوں سے اپنا دامن بچاتی مگر کانٹوں سے بھرپور پودے سے الجھتی ہونگی کہ کسی بھی طور زیادہ سے زیادہ پتیاں جمع کر سکیں کہ ان کے ارمانوں کے جوڑے پر رنگ چوکھا آئے، پھر یوں ہوا کہ اس کے رنگ کی روزافزوں مانگ نے اسے ایک تجارتی جنس بنا دیا۔ یوں گوریوں کو اس کی چنائی روزی روٹی کے لئے کرنی پڑی ۔ اس شے کی بھی قیمت لگا دی گئی جس کا تعلق اپنے پیا سے ملنے کے لئے کئے جانے والے بناؤ سنگھار سے تھا۔ یہ وہ نوکیلے کانٹے تھےجنہوں نے برہنہ پا بلھے شاہ کو چیخنے پر مجبور کیا  ؎

 ‘‘نی میں کوسمبڑا چن چن ہاری’’

گوریوں نے اب اس کے پھول چننا چھوڑ دیئے ہیں ، اس کی سب سے زیادہ کاشت امریکہ اور بھارت میں کی جارہی ہے اور بھارت میں ایک ایسی مشین بنائی گئی ہے جو ہاتھ زخمی کئے بنا ہی محض ہوا کے زور پر بہت تیزی سے اس کی پتیاں کھینچ لیتی ہے۔

دور حاضر میں حضرت انسان کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضرویات نے موجود قدرتی ذرائع کے بہترین اور ہر ممکن  استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیااور تحقیق کی نئی راہیں کھولی، ویرانوں اور بنجر زمینوں کا باسی یہ مسکین بھی تحقیق کاروں سے نظر نہ بچا سکا۔اس کی پتیوں کے علاوہ اس کے ہر حصے پر ہوئی تحقیق نے کئی اور رازوں سے پردہ اٹھایا اور کوسمبے میں چھپے بے بہا خزانوں کو بے نقاب کیا۔کوسمبہ کا تنا اوپر سے شاخوں میں تقسیم ہوتاہے اور ایک شاخ پر ایک سے پانچ پھول ہوتے ہیں  جن سے پہلے پتیاں اور پھر بیج حاصل کئے جاتے ہیں۔آج جب کیمیائی  سرخ رنگ بے حد ارازاں ہے کوسمبہ اپنے بیجوں اور ان سے حاصل ہونے والے اعلی درجے کے تیل کے لئے محبوب و مطلوب ہے۔ موسم کے گرم اور خشک ہونے پر جب پیتاں یا تو چن لی جاتی ہیں یا پھر گر جاتی ہیں تو اس کے صراحی دار حصہ سے جو دراصل اس کا بیج گھر ہوتا ہے، بیج حاصل کئے جاتے ہیں ایک پھول میں پندرہ سے بیس بیج ہوتے ہیں۔ بیج کیا ہوتے ہیں سیپ کے موتی ہوتے ہیں۔ دودھیا  چمکدار رنگ ، ۶سے ۸ ملی میٹر لمبا اور ایک طرف سے قدرے کم اور دوسری جانب سےقریباً ۴ ملی میٹر   موٹا۔ بیج بہت سخت نہیں ہوتے اور بوائی پر بھی  صرف دو دن میں ہی نئی کونپلیں نکال لیتے ہیں۔ اتنی سہل اور آسان کاشت اور اتنی تیز رفتار بڑھوتری یہ سب کوسمبے کا ہی کمال ہے۔

کوسمبہ قحط اور پانی کی کمیابی کو برداشت کرنے کی بے مثال صلاحیت کا حامل ہوتا ہے اور سخت سے سخت حالات، نمکیات ، زمین کے بنجر پن اور کسی دیکھ بھال کے بنا ہی اپنی زندگی کا سفربغیر کسی شکوہ کے پورا کرتا ہےاور جاتے جاتے ایک ایسا تیل دے جاتا ہے جو صرف کھانا پکانے کے لئے ہی انتہائی صحت بخش تصور نہیں کیاجاتا ،صنعتی لحاظ سے بھی لاجواب اور بیش قیمت مانا جاتا ہے۔اس کی مرکزی جڑ آٹھ سے دس فٹ تک گہرائی میں جاتی ہے جو اس قد کاٹھ کی جڑی بوٹیوں کے لئے بہت زیادہ سمجھی جاتی ہے۔

اپنی کوئی مخصوص بو یا ذائقہ نہ ہونے کے باعث جن کھانوں میں استعمال کیا جائے ان کی اپنی لذت  اور خوشبو کو برقرار رکھتا ہے، سفید رنگ کی تیاری میں جتنے بھی تیل استعمال کئے جاتے ہیں وہ ایک ہلکا سا پیلا رنگ ضرور دیتے ہیں لیکن کوسمبے کا تیل یہاں بھی میدان مارتا ہے اور اس سے بنی اشیأ ہمیشہ بیش قیمت ہی شمار ہوتی ہیں۔

اب آیئے اس کی ادویاتی اہمیت اور اب تک کی جانے والی تحقیق پر جو ایسے ایسے انکشافات کر رہی ہے کہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہوا جاتا ہے۔ ہماری مقامی طب میں اس کے استعمال کی کوئی واضح روایت تو نہیں مل سکی سوائے اس کے تیل کے صحت مند خیال کئے جانے کےلیکن جدید سائنس کی روشنی میں اس کی جو اہمیت دیکھائی دی ہے وہ اس کی ٹوپی میں کئی پھندنوں کا اضافہ کرتی ہے۔

سب سے پہلے تو ہم کوسمبہ تیل کی ساخت  کا جائزا لیں تو  پتہ چلتا ہے کہ موصوف ستتر فیصد ان چکنائیوں پر مشتمل ہیں جنہیں پولی ان سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز یا ‘‘اومیگا چھ’’ اور بہت ہی نایاب‘‘ اومیگا تین’’  کہا جاتا ہے ، تیرہ فیصد مونو ان سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز اور صرف دس فیصد مضر صحت چکنائی یعنی سیچو ریٹیڈفیٹی ایسڈز ہوتے ہیں ۔اس طرح یہ زیتون کے تیل سے بھی بازی مارتا نظر آتا ہے۔اپنی ساخت میں اومیگا تین اور اومیگا چھ کی بڑی مقدار کے باعث خون سے مضر صحت چکنائی (ایل ڈی ایل) کو کم کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جاتا ہے، یوں بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) اور خون کے رگوں میں جمنے (بلڈ کلوٹنگ) کی اصلاح کرتا ہے۔کوسمبہ تیل کو بالوں کے جھڑنے اور گنجے پن کو روکنے میں بھی مددگا پایا گیا ہےاس کے علاوہ بھی بہت سے امراض میں اس کا استعمال تجویز کیا جاتا رہا ہے مگر اس کی جدید سائنسی تصدیق نہ ہونے کے باعث ان کا ذکرمناسب خیال نہیں کیا گیا۔

ایک اور قابل ذکر تحقیق جس نے کوسمبے کی اہمیت کو چار چاند لگادیئےوہ ریاست ہائے متحدہ کی اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کی محقق پروفیسرمارتھا بیلوری نے کی۔ ایسی ادھیڑ عمر  خواتین جو مینوپاز کے مرحلے سے گذر رہیں تھیں ، موٹاپے اور ذیابیطس کا شکار تھیں جسے ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا جاتا ہے، کوسمبہ تیل  کےاستعمال سے نہ صرف ان کی شوگر میں کمی دیکھی گئی بلکہ ان کا وزن بھی قابل ذکر حد تک کم ہوا۔کوسمبے کا تیل ہی خواتین کی کچھ اور شکایات جو ہارمون کی کمی بیشی سے متعلق تھیں اور خاص طور پر حیض کی بندش جیسی اہم شکایات میں ازالے کے لئے بھی اولین ترجیح مانا جاتا ہے، شاید اسی لئے حاملہ خواتین میں اس کا استعمال  ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

کوسمبہ کی گراں بہا غذائی اور ادویاتی  خوبیوں اور معاشی اہمیت میں اضافے نے اس کی بہتر پیداوار دینے والی اقسام اور کاشت کے منافع بخش طریقہ کار  کے بارے میں تحقیق کی نئی راہیں کھولی اور آج ہر علاقے میں وہاں کے موسم کے مطابق بہتر کارکردگی والی اقسام ان کے کاشتکاروں کے زیراستعمال ہیں۔ پاکستان میں میٹھا اور زراعت کے لئے مناسب پانی جس رفتار سے کم ہو رہا ہے ہمیں ایسی فصلات جو کم پانی میں پیداوار دینے کے ساتھ ساتھ منافع بخش بھی ہوں تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے، کوسمبہ بھی ایسی ہی ایک بھولی بسری فصل ہے جو ہزاروں سال سے ہمارے زرعی سماج کا اہم حصہ رہی ہے ۔ پاکستان میں پنجاب ، بلوچستان اور سندھ کے صحرائی علاقے اس کی کاشت کے لئے موزوں ہیں اور اپنے کاشتکار کو خوشحال کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

کچھ علاقوں میں اس کی کاشت کے بارےمیں سنا بھی گیا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کتنے رقبے پر اس کاشت کی گئی اور پیداوار کیا تھی وغیرہ ،   زرعی تحقیقاتی ادارے کی ویب سائٹ پر جو اعداوشمار ہیں وہ کم از کم دس بارہ سال پرانے ہیں پھر ان مردہ اور جامد اعداد  وشمارکی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق بھی نہیں ہو سکی اس لئے ان کا حوالہ مناسب نہیں سمجھا گیا۔یہ ایک حوصلہ شکن حقیقت ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ یہ بے خبری اور لاپرواہی ہمارا اجتماعی قومی رویہ بن چکی ہے ۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جمود کب ٹوٹے گا کیونکہ ہم نے تو ابھی شروعات بھی نہیں کی ہیں۔اگر ہم نے روش نہ بدلی تو کوسمبہ اور ایسے اور بہت سے بھولے بسرے پودے بلھےشاہ جیسے شاعروں کے نوحوں میں ہی ملیں گے۔

Leave a Reply