کسی بھی شے کی شناخت کےلئے نام کی اہمیت مسلم ہے۔ اور ہم سب اشیأ اور افراد کو ان کے ناموں سے ہی پکارتے ہیں، نام رکھنے کا عمل دلچسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ روائیتی طورپر ہمارے سماج میں یہ بہت سادہ سا عمل تھا اور ایسے نام رکھے جاتے تھے جو آسان ہوں اور ان کی کوئی بہت ہی دلچسپ کہانی بھی ہوتی تھی جیسے جب بچہ پیدا ہوا تو بہت زور کا طوفان تھا اور آندھی اور بادلوں نے اندھیرا سا کردیا تھا اس لئے اس بچے کو ‘‘کالی’’ کہا جانے لگا، کوئی پیدائیش کے مرحلے میں مشکل سے بچ پایا تو اسے ‘‘ اللہ بچائی ’’  یا  ‘‘ اللہ رکھا’’  کانام ملا۔ اور جمعہ خان کو تو یہ بتانا بھی نہیں پڑتا کہ وہ جمعہ کے بابرکت دن پیدا ہوا تھا۔تعلیم اور معاشی ترقی نے ناموں کے معنی کو بھی بہت اہم بنا دیا اور ایسے نام رکھے جانے لگے جو  بہت مشکل اور عجیب  مگر معنی خیز ہوں ۔ مذہب اور اس سے منسلک زبانیں بھی نام رکھتے وقت بہت اہم سمجھی جانے لگیں۔ اس طرح کے نام معاشی حیثیت اور علمی رتبے کے عکاس بھی سمجھے جانے لگےاور اس  طرز عمل نے نام رکھنے کے ان رویوں کو اور بھی پختہ کر دیا۔

ایسی نئی اشیأ  اور مشینیں جو پہلے ہمارے سماج کا حصہ نہیں تھیں کےمقامی نام بھی بہت دلچسپ ہوتے ہیں اور لوگوں کی حس مزاح کے عکاس بھی۔ لاہور میں سڑکوں کی صفائی کرنے والے آلات میں ایک خاص قسم کے ٹریکٹر کی شمولیت نے لاہوریوں کی حس مزاح کو چھیڑا تو ‘‘ چوڑا  ٹریکٹر ’’ کا نام وجود میں آیا۔

نباتات کے سائنسی نام رکھنے کا طریقہ کار بھی کچھ کم دلچسپ نہیں مگر پودوں اور درختوں کے نام رکھنے کے کچھ اصول ماہرین نے طے کردیئے ہیں اور جب بھی کوئی نیا پودا یا درخت دریافت ہوتا ہے تو نام رکھنے کے ان اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔نام کے دو یا زیادہ حصے ہوتے ہیں ،ان میں بھی پہلے اس درخت کے مقامی نام کو سامنے رکھا جاتا ہے اور وہ نام کا حصہ ہوتا ہے۔  پھر اس کی  کوئی واضح پہچان مثلا  ًتنے یا پتوں کےرنگ ، پتوں کی ساخت یا ظاہری ، باطنی خاصیت وغیرہ میں سے کوئی اور ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی اس پودے یا درخت کا آبائی وطن  یا اس کا نباتا تی خاندان بھی اس کے نام کا حصہ بنتا ہے ۔ جیسے کہ ہمارے درخت نیم کا نباتاتی نام ‘‘ ازاڈاریکٹا انڈیکا ’’ ہے اس کے نام میں اس کا ہندوستانی ہونا ظاہر ہے۔ ایک اور مثال گل نشتر کی لیں اسے نباتاتی لاطینی میں ارتھرینا ۔سٹرکٹا ۔سوبی روزا  ،کہا جاتا ہے، پہلا حصہ اس کا نباتاتی خاندان ہے اور اس کے سرخ پھولوں کو ظاہر کرتا ہے، دوسرا گل نشتر کے سیدھے اور بلند تنے کی طرف اشارہ ہے اور آخری اس کی کارک کی مانند لکڑی  کو ظاہر کرتاہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور  میں ایک سیمینار ہورہا تھا اور اس میں کئی ملکوں سے آئے اساتذہ اپنے مقالات پڑھ رہے تھے، ان اساتذہ میں سے پڑوس سے آئے ایک پروفیسر سردار گوربچن سنگھ گل بھی تھے جو مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی آگئے تھے اور گورنمنٹ کالج کے عمدہ لان میں ٹہل رہے تھے، ان کی نظر ایک بہت ہی منفرد درخت ہر پڑی جو بنا پھولوں کے ہی بہت رنگین تھا۔ اس رنگ و نور بکھیرتے ساحر نے استاد کو اپنی جانب کھینچا، وہ اس سے پہلے اس درخت سے واقف نہ تھے۔ انہوں نے مالی کو بلا کر اس کے بارے میں دریافت کیا اور درختوں ،پودوں کی بہترین دیکھ بھال پر اس کی تعریف بھی کی۔ سردار صاحب اپنے لیکچر سے فارغ ہو کر واپس جانے لگے تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اسی درخت کے دو پودے اپنی گاڑی کی سیٹ پر اپنےمنتظر پائے۔ ان کے اصرار پر بھی مالی نے ان کی قیمت لینے سے انکار کیا اور اسے محبت کا تحفہ قرار دیا۔ وطن واپسی پر محبت کا وہ تحفہ ان کے گھر کے با غیچے کی رونق بنا اور آج تک وہاں پھل پھول رہا ہے۔ سردار گوربچن سنگھ نے اس کا نام ‘‘ محبت دا بوٹا ’’ رکھ دیا ۔ایک گمنام مالی اور سردار گوربچن سنگھ کے درمیان محبت بھی ایک ایسے درخت کا نام رکھنےکا باعث بنی جس کے پہلے سے ہی کچھ نام موجود تھے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے مگر یہ بھی پودوں کے نام رکھنے کا ایک قاعدہ قرار پایا۔

محبت دا بوٹا کوئی اور نہیں ہمارا اپنا  ‘‘گاب ’’ ہے جسے نباتاتی زبان میں ‘‘ڈائیوس پائیرس مالاباریکا ’’ اور عرف عام میں انڈین پرسیم مون کہتے ہیں ۔  یہ نام قدیم یونانی زبان سے لیا گیا ہے اور اس کے معنی جنت کا پھل یا خدائی تحفہ کے ہیں۔ نام کا دوسرا حصہ اس کے آبائی وطن مالا بار کو ظاہر کرتا ہے۔گاب ایک وسیع نباتاتی خاندان  ‘‘ایبونایسی ’’ کے ۴۵۰ سے ۵۰۰ ارکان میں سے ایک ہے ۔ ویسے اس خاندان کےارکان  رائل بوٹینیکل گارڈن انگلینڈ  ‘‘کیو’’ نے ایک ہزار بتائے ہیں جن میں سے ۷۰۰ کو مستند قرار دیا ہے۔اس کے خاندان کی وجہ تسمیہ اس کی مضبوط اور سیاہ لکڑی ہے۔یہ تعلق اتنا گہرا اورمضبوط ہے کہ اب کسی بھی درخت کی مضبوط اور سیاہ لکڑی کے لئے  ‘‘ایبونی’’ کا ہی لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے گاب کو مالابار ایبونی ، سیاہ و سفید ایبونی وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

آپ نے اگر گاب کو دیکھا ہے تو آپ مجھ سےاور سردار گوربچن سنگھ سے ضرور اتفاق کریں گے کہ آپ کی صرف ایک نظر ہی آپ کو اس کی محبت کا اسیر بنا دیتی ہے۔ گاب ایک سایہ دار درخت ہے نہیں شائدیہ کہنا سہی نہیں ہوگا ۔ یہ ایک بہت ہی گھنا سایہ دار درخت ہے اتنا گھنا کے اس کے تلے نیم اندھیرا محسوس ہوتا ہے اور ٹھنڈک  کا تو کیا ہی کہنا۔ اس کے نئے پتے شوخ گلابی یا سرخ ہوتے ہیں اورموسم بہار کی دھوپ میں چمکتے ہوئے بہت دور سے ہی اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔  ان کا یہ شوخ  رنگ مدھم ہوتے ہوئے پہلے ہلکا  گلابی پھر سبز اور آخر میں گہرا سبز جسے آپ کاہی بھی کہہ سکتے ہیں ہو جاتا ہے۔ پتوں کی اس رنگ بازی کو ہی گاب کا حسن مانا گیا ہے۔

آئیے دیکھیں تو سہی کہ آسماں چھو لینے کی خواہش دل میں رکھنے والےاس مخروتی شکل و صورت کے شجر میں ایسا کیا ہے کہ دیکھنے والا گرفتار بلا ہو جائے۔ عام حالات میں ۱۵ میٹر اور موافق حالات میں ۳۵ میٹر تک آسمان کی جانب نکل جانے والےاس ہریالے بنےکی شاخیں  اطراف میں پھیل کر اسے سایہ دار درخت کا درجہ دیتی ہیں مگر اس کا لمبا قد  اسے طاقتو ر اور جری کے روپ میں ظاہر کرتا ہے اور اوپر سے نیچے کی جانب جھولتی شاخیں اس کا چہرہ بطور ایک عاجزدوست پیش کرتی ہیں۔اب کون ہوگا جو دامن بچا پائے گا۔ تنا بہت موٹا نہیں ہوتا عموماً دو سے ڈھائی فٹ تک ہوتا ہے۔ چھال بہت کٹی پھٹی نہیں ہوتی اور سیاہی مائل بھوری یا سیاہ ہوتی ہے۔

پتے لمبے اور بیضوی ہوتے ہیں جنہیں انگلش میں اوبولونگ کہتے ہیں۔ اوپری سطح ہموار اور چکنی ہوتی ہے ، کچھ چمکدار بھی اسی لئے دھوپ میں اس کے لشکارے دور  دور تک جاتے ہیں۔ پتوں کی رگیں ظاہر نہیں ہوتیں صرف درمیانی رگ  ہی کچھ واضح ہوتی ہے۔ پتے ابتدأ میں پورے نہیں کھلتے اور ادھ کھلی کتاب کی طرح  نیم وا ہوتے ہیں ۔ ان  کی یہ ادا بھی بہت دلفریب ہوتی ہے۔ پتے شاخوں پر  دائیں بائیں ایک کے بعد ایک کی ترتیب سے بڑھتے ہیں اور نوکدار ہوتے ہیں ۔ ساخت میں موٹے اور چمڑے کی طرح ہوتے ہیں۔  رنگ بدلتے پتے، اوپر سے نیچے کی جانب جھولتی شاخیں اورگھنا سایہ یہ سب مل کر گاب کو حسن مہربان کے لقب سے نواز تے ہیں۔

گاب کے خاندان میں سدا بہار اور پتے جھاڑنے والے دونو ں طرح کے درخت پائے جاتے ہیں مگر گاب خود ایک سدا بہار درخت ہے۔ گاب پر دونوں اصناف کے پھول ایک ساتھ ہی موجود ہوتے ہیں جو اس کے نباتاتی ملاپ کو سہل اور تیز رفتا بناتے ہیں مگر گاب خود بہت آہستگی سے بڑھنے والا شجر ہے۔پھول کریمی سفید ہوتے ہیں۔ بہت دھیمی سی خوشبو بھی گاب کے پھولوں کا ہی خاصہ ہے۔ پھول نئے پتے نکالنے کے فوراً بعد ظاہر ہوتے ہیں ، اس طرح گاب مسلسل نظروں میں رہتا ہے۔ دونوں اصناف کے پھول ساخت اور وضع قطع میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، شاخوں پر جن گرہوں سے پتے پھوٹتے ہیں وہیں سے  پھول، نر  تین سے نو اور مادہ پھول ایک سے پانچ کے گچھوں میں ظاہر ہوتے ہیںنر پھول  مادہ پھولوں سے چھوٹے ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی ڈنڈیوں سے شاخوں سے ایسے جھولتے ہیں کہ ان کا رخ نیچے کی جانب ہوتا ہے، مادہ پھولوں سے موازنہ کریں تو نسبتاً گول اور ادکھلے سے۔ مادہ پھول پوری طرح کھلے ہوئے اور نسبتاً بڑے، مادہ پھول کا نچلا حصہ چورس ہوتا ہے اور پتیاں بھی چار حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں پھولوں کے درمیانی حصے پر جامنی رنگ کے دھبے ہوتے ہیں جو اس کےحسن میں اضافہ کرتے ہیں ۔  حشرات الارض جن میں اڑنے والی اور رینگنے والی سب ہی اقسام شامل ہیں اس کے نباتاتی ملاپ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قدرت نے زندگی کی سب اشکال کو ایک دوسرے پر انحصار کی ایک ایسی ڈور میں پرو دیا ہے کہ اس سے انحراف ممکن نہیں اور ایسا کرنے کی کوئی بھی شعوری اور غیر شعوری کوشش ہمیں صرف اور صرف تباہی کی جانب ہی لے جاسکتی ہے، اس حقیقت کا ادراک ہی مستحکم ترقی کا واحد راستہ ہے۔

اب باری آتی ہے پھل کی جو مادہ پھول کے نچلے حصے یعنی چار حصوں میں بٹی اووری سے ظاہر ہوتا ہے اور لگ بھگ ایک سے ڈیڑھ انچ چوڑا اور دو انچ لمبا ، انڈے  کی مانند بیضوی ہوتا ہے۔ کچے پھل کا رنگ سبز مگر پک کر سرخی مائل بھورا ہو جاتا ہے۔ایک پھل میں سیاہی مائل بھورے رنگ کے چھ بیج ہوسکتے ہیں۔ بیج کافی سخت ہوتے ہیں اور کاشت کے بعد پھوٹنے میں بھی ۳ ہفتے تک لے سکتے ہیں۔ کچا پھل کسیلا اور ٹے نن سے بھرپور ہوتا ہے مگر پک کر میٹھا ہوجاتا ہے۔ اس کا  پھل بندروں اور چمگادڑوں کا من پسند ہے اور وہ اس کے پکنے کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ دیکھئے کس طرح چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے ، مکھیاں ، پروانے وغیرہ مل کر گاب کے پھولوں کےنباتاتی ملاپ کو ممکن بناتے ہیں اور اس کا پھل وجود میں آتا ہے جو بندروں ، چمگادڑوں اور نجانے کتنے چرند پرند کو زندگی کی توانائیاں بخشتا ہے اور اس طرح ایک نہ ختم ہونے والا زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے ۔ اس نظام قدرت کو چھیڑنا کسی کے مفاد میں نہیں۔

گاب صرف ایک دلربا حسینہ ہی نہیں ایک ماہر طبیب بھی ہے،  اس کی صرف چھاؤں ہی گھنی اور ٹھنڈی نہیں اس کی لکڑی بھی  نہایت اعلی معیار کی شمار کی جاتی ہے۔ لکڑی کی مضبوطی کا ایک پیمانہ اس کی کثافت یعنی اسکی وڈ ڈینسیٹی بتایا جاتاہے، یعنی اس کے ایک  کیوبک میٹر ٹکڑے کا وزن  کیا ہے۔گاب اس میدان کا بھی مرد ہے اور  اس کی مختلف اقسام  کاوزن ۹۶۰ کلو گرام سے لے کر ۱۱۲۰ کلو گرام تک ہوتا ہے۔ لکڑی کے بارے میں عام تاثر یہ ہی ہے کہ یہ پانی میں نہیں ڈوبتی اور اسی لئے زمانہ قدیم سے ہی کشتیاں لکڑی سے ہی بنائی جاتی رہی ہیں۔ گاب کے خاندان ایبونی ایسی کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ اس کی لکڑی  کی اسپیسیفک گرئیوٹی ایک سے زیادہ ہوتی ہے اور یہ پانی میں ڈوب جاتی ہے۔  خالص پانی کے ایک کیوبک میٹر کا وزن ۱۰۰۰ کلو ہوتا ہے اور اسے معیار مانا جاتاہے۔ اب کسی بھی شے کے ایک کیوبک میٹر حجم کا وزن اگر ایک ہزار کلو سے کم ہو تو اس کی اسپیسیفک گرئیوٹی ایک سے کم ہوگی اور وہ پانی میں نہیں ڈوبے گی جبکہ اگر اس کا وزن ایک ہزار کلو سے زیادہ ہو تو وہ ایک سے زیادہ شمار کیا جائے گا اور وہ پانی میں ڈوب سکتی ہے۔جیسے کی بالسا نامی ایک درخت کی لکڑی کی وڈ ڈینسیٹی  ۱۷۰ ہے یعنی اس کی اسپیسیفک گرئیوٹی ۱۷ء۰ ہے جبکہ ایبونی یا گاب کی وڈ ڈینسیٹی ۹۶۰ سے ۱۱۲۰ تک ہوتی ہے یعنی  اس کی اسپیسیفک گرئیوٹی ۹۶ء۰ سے  ۱۲ء۱ ہوگی  اور اس کا تیرنا مشکل ہے۔

گاب کی لکڑی کی اس خوبی کو ہنر مندوں  اور دستکاروں نے اپنے ہنر کے اظہار کے لئے خوب استعمال کیا اور طرح طرح کی دیدہ زیب اشیأ عالم وجود میں آئیں ۔  روائیتی طور پر گاب یا ایبونی لکڑی سے شطرنج کے سیاہ مہرے، پیانو اور ہارمونیم کے کالے سر ، گٹار اور وائلن کے فنگر بورڈز وغیرہ شامل ہیں۔ دستکار اس سے مجسمے بناتے ہیں اور بہت عمدہ اور دیرپا گھریلو اور دفتری فرنیچر بھی بنایا جاتا ہے۔ گاب کی مضبوط سیاہ لکڑی سے بنے مجسمے دیکھنے میں پتھر کے معلوم ہوتے ہیں اور شاید اتنے ہی مضبوط اور دیر پا بھی۔ اب یہ تو بنوانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کوئی مذہبی نوعیت کا کام کرواتے ہیں یا پھر فنکار کو خود اپنی پرواز پر اختیار ہے۔ اس لئے ایبونی سے بنائے گئے مختلف نوعیت کے فن پارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سری لنکا کے فن کار اپنے ہم وطن ہاتھیوں کو ہر زاویے سے سیلون ایبونی(ڈائیوس پائیرس ایبی نم) میں ڈھالتے آئے ہیں۔افریقہ کے فنکاروں کو اپنے فن کے اظہار کے لئے گاب کے خاندان نے گیبون ایبونی  (ڈائیوس پائیرس  کراسی فلورا) نام کا ایک فرد دے رکھا ہے اور اس کی سیاہ لکڑی سے  بنے مکھوٹے (ماسک) پوری دنیا میں مقبول ہیں اور افریقہ کی منفرد ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور کے جناب محمد عجائب اور جناب ظہیرالدین خان کی تحقیق کے مطابق گاب کے سبھی حصے حکمأ کے زیراستعمال ہیں چاہے وہ اس کے پتے ہوں یا چھال اس کا پھل ہو یا بیج سب ہی کسی نہ کسی بیماری کے علاج کے لئےموزوں تصور کئے جاتے ہیں۔ چھال اور پتے  ہاضمہ کی خرابی اور اس سے شکم کے اوپری حصے میں ہونے والے درد ، اسہال ، خون کا بہنا، ذیابیطس، کوڑھ اور متعدد جلدی بیماریوں وغیرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔پھل چونکہ ترش ہوتاہے اس لئے ہاضمے اور معدے کی مختلف شکایات میں تجویز کیا جاتا ہے۔ گاب ہی کے خاندان کا ایک فرد امریکن  پرسیم مون (ڈائیوس پائیرس   ورجینی آنہ) ہے جسے ہم عرف عام میں جاپانی پھل بھی کہتے ہیں جو اپنے ذائقے اور غذائی افادیت کے باعث  بجا طور پر بہت مقبول ہے۔

برصغیر اپنے آپ میں ایک منفرد اور متنوع خطہ ہے، یہاں بہت سی ملتی جلتی اور بہت سی یکسر مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کے بے شمار لہجے ہیں، موسیقی، رقص، مجسمہ سازی اور دوسرے فنون کا ایک عظیم ورثہ ہے جسے اس عظیم خطے کے باسی صدیوں سے بلکہ ہزاروں سال سے پالتے پوستے  اور بڑھاتےآئے ہیں۔یہاں سمندر بھی ہیں اور دنیا کے عظیم تر پہاڑ بھی ,یہاں میدان بھی ہیں اور وسیع و عریض صحرا بھی ، شدید سرد علاقے بھی ہیں اور گرم ترین بھی غرض جو کچھ جہاں میں ہے وہ ہندوستاں میں ہے۔ یہی حال نباتاتی ورثے کا بھی ہے۔ ہر طرح کا پھول پودا اور درخت یہاں پھلتا پھولتا ہے۔ایسے درخت ہیں جو ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں تامل ناڈو تک اور بنگال سے لے کر سندھ تک یکساں طور پر پائے جاتے ہیں ۔گاب بھی ایسا ہی جہاں گرد ہے مالابار کے ساحلوں سے لے کر پنجاب اور سندھ کے میدانوں اور ریگزاروں ،سب میں ہی زمیں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اب اگر سردار گوربچن سنگھ گل اس کی محبت میں گرفتار ہوئے تو آپ انہیں ایسی نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ، ایسا آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے آپ ایک نظر گاب کو دیکھیں تو!!

Leave a Reply